
خون سے لکھی گئی سازش کشمیر کا ایک ایسا باب جو آج بھی جل رہا ہے۔تاریخ کے بعض ابواب کاغذوں تک محدود نہیں رہتے؛ وہ زمین کی رگوں میں دھڑکتے ہیں اور جب کسی نے انہیں مٹانے کی کوشش کی تو وہ لہو بن کر اُبھر آئے۔ یہی داستان کشمیر کی بھی ہے — ایک ایسی داستان جس کے اثرات 1947 کے خونریزی کے بعد بھی دریاۓ جہلم کی لہروں میں کہیں سنائی دیتے ہیں۔ یہ محض ایک ماضی کا سانحہ نہیں، بلکہ ایک منصوبہ تھا جس کی بنیاد برطانوی ایوانوں میں رکھی گئی اور جس کے سائے آج بھی سری نگر کی فضاؤں پر منڈلا رہے ہیں۔
3 جون 1947 کو برطانوی پارلیمنٹ نے "تقسیمِ ہند" کا جہاں اعلان کیا، دنیا نے اسے آزادی سمجھا، مگر ریاستِ جموں و کشمیر کے لیے وہ دن غلامی کی ابتدا ثابت ہوا۔ اس وقت ریاست مسلم اکثریتی تھی — تقریباً 77 فیصد آبادی مسلمان — اور جغرافیائی، تجارتی اور ثقافتی طور پر پاکستان سے گہرا اتصال تھا۔ مگر تختِ راج پر بیٹھا مہاراجہ ہری سنگھ اپنے تاج و تخت کی حفاظت میں اپنی رعایا کے مفادات کو نظر انداز کرنے پر تیار نظر آیا۔
اسی سیاسی کشمکش کے بیچ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے رہنماؤں نے 19 جولائی 1947 کو ایک تاریخی اجلاس بلایا۔ اُس قرارداد میں کشمیری عوام نے اپنے مستقبل کا انتخاب ظاہر کیا اور اعلان کیا کہ ریاست کا مذہبی، ثقافتی اور جغرافیائی تعلق پاکستان سے ہے اور وہ الحاقِ پاکستان کے خواہان ہیں۔ یہ صرف ایک سیاسی فیصلہ نہ تھا — یہ کشمیریوں کی اجتماعی روح کی آواز تھی۔
یہ آواز جب دہلی، جموں اور لندن تک پہنچی تو مہاراجہ، لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور کئی سیاسی حلقوں کے چہروں پر اضطراب نمودار ہوا۔ ایسے خدشات پیدا ہوئے کہ اگر کشمیری خود فیصلہ کریں تو کشمیر مستقل طور پر پاکستان کا حصہ بن جائے گا۔ نتیجتاً ایک خفیہ منصوبہ بندی کا آغاز ہوا: مسلم اکثریت کو ختم کر کے ریاست کا جھکاؤ بدل دیا جائے۔
تقسیم کے وقت گرداسپور ضلع کے بارے میں جو نقشہ تھا، اس میں ریڈکلف ایوارڈ کے اعلان سے چند گھنٹے قبل خاموشی سے تبدیلی کی گئی اور گرداسپور بھارت کو دے دیا گیا — نتیجتاً بھارت کو کشمیر تک زمینی راستہ میسر آیا۔ چند ہفتوں کے اندر پٹھانکوٹ سے کشمیر تک سڑک تیار کر دی گئی، جو بعد ازاں فوجی داخلے کے لئے وہی راستہ بنی۔ یہ اقدام اتفاقی نہیں بلکہ ایک سیاسی خنجر تھا جو کشمیر کے سینے میں گھونپا گیا۔
19 جولائی کی قرارداد کے بعد تیزی سے وہی اقدامات کیے گئے جو سازش کو عملی شکل دیتے تھے: مہاراجہ نے مسلم افسروں کو فوج سے برطرف کیا، ریاستی سرپرستی میں بعض ہندو تنظیموں اور عناصر کو اسلحہ اور تحفظ فراہم کیا گیا، اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کا آغاز ہوا۔ مسلمانوں کو "پاکستانی ایجنٹ" کہا جانے لگا، گھروں پر چھاپے پڑنے لگے اور تشدد کی فضاء پھیل گئی۔ جون سے اکتوبر تک جموں کی گلیاں اور دیہات آگ، چیخ و پکار اور نعشوں سے بھرنے لگے — گھروں کو جلایا گیا، عورتوں کے خلاف سنگین جرائم ہوئے، اور بہت سے دیہات صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔
یہ سب کچھ ایک ریہرسل تھا اس قیامت کی جس کا عروج 6 نومبر 1947 کو آیا۔
6 نومبر 1947 کو ڈوگرہ حکومت نے اعلانات کیے کہ مسلم خاندانوں کو "محفوظ طور پر پاکستان پہنچایا جائے گا"۔ ہزاروں خاندان اللہ کے نام پر، پاکستان کی جانب روانہ ہوئے — بوڑھے، مائیں، بچے، سب کے چہروں پر ایک ہی امید تھی: خوابیدہ سرزمینِ نو میں پناہ۔ مگر جب وہ مڈھ، سیمبل اور اکھنور کے قریب پہنچے تو ڈوگرہ فوج، مقامی ہندو شدت پسند عناصر اور کچھ مسلح جتھوں نے اُن پر اندوہناک حملے کیے۔ مردوں کو گولیوں سے نشانہ بنایا گیا، خواتین کو اغوا اور شہوانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، معصوم بچوں کو دریا میں پھینکا گیا۔ وہ منظرنامہ جس نے زمین اور آسمان دونوں کو لال کردیا — ایک ایسی گھمبیر انسانیت سوز حقیقت جس نے تاریخ کو شرمندہ کر دیا۔
واقعات و گواہیاں بین الاقوامی ذرائع اور بعض مورخین کے قلم سے بھی ثبت ہوئیں۔ برطانوی اخبارات اور کچھ مورخین نے اُس دور کے واقعات کا ذکر کیا، اور بعض نے ان قتلِ عام کو منظم اور منسوبہ وار قرار دیا۔ چند مطالعوں میں، مختلف تخمینے دیے گئے کہ اس ہنگامے میں لاکھوں مسلم جانوں کا نقصان ہوا — اعداد مختلف ہیں، مگر بات واضح ہے: یہ کوئی معمولی فسادات نہیں تھے بلکہ بڑے پیمانے پر انسانی ہلاکت اور آبادیاتی تبدیلی کی کوشش کے شواہد دکھائی دیتے ہیں۔ بعض اہلِ تاریخ نے اسے "حکومتی منصوبہ بندی" کہا، اور دیگر نے اس عمل کے نتیجے کو ایک منظم ڈیموگرافک تبدیلی کے طور پر دیکھا۔
اقوامِ متحدہ کے مباحثات، بین الاقوامی تفتیشیں اور سیاسی دباؤ کے باوجود، برطانیہ سمیت کئی طاقتیں خاموش رہیں یا معاملات کو پیچیدہ سیاسی و قانونی شکل میں بند کرنے کو ترجیح دیں۔ بھارت نے وقتاً فوقتاً ریاستی مراحل کو قانونی جواز فراہم کرنے کی کوششیں کیں، اور الحاق کے مرحلے کو آئینی اور فوجی موجودگی کے ذریعے مضبوظ کیا گیا — یوں ایک منظم قتلِ عام کو "قانونی کارروائی" کا لبادہ پہنا دیا گیا، جب کہ حقیقت میں کئی لوگوں کے لیے وہ نابودی اور بے گھر ہونے کا دور تھا۔
وقت کے ساتھ چہرے بدلتے رہے مگر مقصد نظر آتا رہا۔ 5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے آئین کی دفعات 370 اور 35A کو منسوخ کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی۔ اس کے بعد زمین، شہریت اور ڈومیسائل کے قوانین تبدیل کیے گئے اور غیر ریاستی باشندوں کی آمد و آباد کے امکانات نے پھر ایک بار کشمیری شناخت کے مستقبل کو غیر یقینی بنا دیا۔ یہ سیاسی و قانونی حربے اس 'پرانی منصو بہ' کے جدید زاویے معلوم ہوتے ہیں — بندوقیں کم دکھائی دیتی ہیں، مگر کاغذ، قانون اور پالیسیوں کے ذریعے وہی مقصد حاصل کرنے کی کوشش جاری ہے: کشمیر کی مسلم شناخت کو مدرسۂ وجود سے مٹانا۔
اے کشمیری نوجوان! یہ داستان محض ماضی کی داستان نہیں؛ یہ تمہاری شناخت، تیزی، اور آئندہ نسلوں کی حفاظت کا معاملہ ہے۔ جب تاریخ کے صفحات جھلملاتے ہیں تو انہیں صرف پڑھ لینا کافی نہیں ہوتا — انہیں سمجھنا، زندہ رکھنا اور سچائی کے علم بردار بننا
واپس کریں