دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پنجاب‘ مقامی حکومتوں کے قیام میں تاخیر کیوں؟مصدق گھمن
No image پنجاب اس لحاظ سے بڑا بدقسمت صوبہ ہے کہ یہاں مقامی حکومتوں کے انتخابات نہیں ہوئے۔ 2021-22ء میں خیبرپختونخواہ‘ سندھ اور بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوگیا لیکن پنجاب کے عوام اس آئینی حق سے محروم رہے۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں مقامی حکومتوں کا ایکٹ 2019ء متعارف کروایا گیا۔ اس ایکٹ کی وجہ سے مقامی حکومتوں کا 2013ء میں بننے والا قانون غیر موثر ہوگیا اور یوں اس قانون کے تحت وجود میں آنے والی تمام مقامی حکومتیں ختم ہوگئیں۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ فوری طور پر انتخابات کروائے جاتے لیکن فیصلہ سازی پر وہ مائند سیٹ حاوی ہوگیا جو آج بھی جاری ہے اور بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات منتقل کرنے میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ پنجاب کے ایم پی ایز اور ایم این ایز نہیں چاہتے کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات ہوں۔ وہ ہر صورت کارپوریشن اور ضلع کونسل کے اختیارات پر قابض رہنا چاہتے ہیں۔ تحریک انصاف کے دور میں بھی یہی ہوا۔ 2019ء کا ایکٹ منظور ہونے کے باوجود 2019-2020ء اور 2021ء کے سالوں میں انتخابات نہ کروائے گئے۔ دریں اثناء عدالت عظمیٰ کے حکم پر بلدیاتی اداروں کو بحال کر دیا گیا جن کی مدت 2021ء میں پوری ہوگئی۔
بلدیاتی ادارے بحال تو ہوئے تھے مگر ان کو اختیارات نہ دئیے گئے یوں وہ عضو معطل بن کر گئے۔ غلط کو غلط کہنا چاہیے بھلے اس غلط کام کو کرنے والے اپنی جماعت کے لوگ ہی کیوں نہ ہوں۔ پاکستان کی بربادی کی ایک وجہ سیاسی جماعتوں میں اندھی تقلید کا رواج ہے۔ غلط کو غلط نہیں کہیں گے اور غلطی کی نشاندہی ہی نہیں کریں گے تو اصلاح کیسے ہوگی؟ بات ہو رہی تھی کہ بلدیاتی اداروں کو اختیارات منتقل نہ کرنا ایک سنگین غلطی تھی جو تحریک انصاف کے دور میں ہوئی‘ اس سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ 2019ء کے ایکٹ کو 2021ء میں ایک آرڈیننس کے ذریعے ختم کر دیا گیا۔ پنجاب لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کے ذریعے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء اور پنجایت اور نیبریڈ کونسل ایکٹ 2019 کو منسوخ کر دیا گیا۔ یہ اقدام ایک بہت بڑا مذاق تھا۔ یہ اقدام اٹھانے والوں کے ذہنوں میں یقینی طور پر انتخابات کو مئوخر کرانے کی سکیم ہوگی وگرنہ ایسا کہاں ہوتا ہے کہ اپنے ہی بنائے ہوئے قانون جو ابھی لاگو بھی نہ ہوا ہو تو اس طرح ختم کر دیا جائے۔ 2022ء میں ایک نیا لوکل گورنمنٹ ایکٹ لایا گیا لیکن 2022ء میں تحریک انصاف اور بعدازاں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اس ایکٹ کے تحت ایکٹ لایا گیا لیکن 2022ء میں تحریک انصاف اور بعدازاں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اس ایکٹ کے تحت انتخابات نہ کروائے۔ مسلم لیگ (ن) پر الزام ہے کہ یہ ہمیشہ بلدیاتی انتخابات کا راستہ روکتی ہے۔ درحقیقت اس مائند سیٹ نے تحریک انصاف کے ایم پی ایز کو بھی یرغمال بنایا اور تحریک انصاف جیسی انقلابی جماعت جس کے کریڈٹ پر خیبرپختونخواہ میں متعارف کروایا جانے والا ضلعی حکومتوں کا شاندار نظام تھا کہ غلط ڈگر پر چلا دیا۔ مسلم لیگ(ن) نے 2008ء میں پنجاب حکومت بنائی‘ یہ حکومت 2013ء تک برسراقتدار رہی لیکن اس نے بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے۔ 2013ء میں عدالت عظمیٰ نے زبردستی کی تو انہیں یاد آیا کہ 2001ء کا بلدیاتی ایکٹ تبدیل کرتا ہے۔ یوں 2013ء میں نیا بلدیاتی نظام لایا گیا جس میں دوبارہ ڈپٹی کمشنرز کو اختیارات دئیے گئے اور بلدیاتی اداروں کو نام نہاد مقامی حکومتوں میں تبدیل کردیا۔ 2013ء میں ایکٹ منظور ہوئے جانے کے باوجود انتخابات 2015ء میں کروائے گئے۔ مرحلہ وار ہونے والے انتخابات میں پورا سال لگا دیا گیا۔ دلچسپ بات بلکہ شرمناک بات یہ ہے کہ 2016ء کا سارا سال گزار دیا گیا اور انتخابی نتائج کا اعلان ہونے کے باوجود اور بلدیاتی ادارے معرض وجود میں آنے کے باوجود مقامی حکومتیں قائم نہ ہونے دی گئیں۔ 2017ء میں مقامی حکومتیں قائم ہوئیں اور انہیں کچھ اختیارات منتقل ہوئے۔ یعنی مسلم لیگ (ن) کے دو پانچ سالہ ادوار قریب قریب اس طرح گزار دئیے گئے کہ ایم پی ایز اور ایم این ایز بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات غصب کرکے بیٹھے ہیں اور عوام اپنے مسائل کے حل کے لئے ایم پی ایز اور ایم این ایز کے پاس خوار ہوتی رہے۔
آج مسلم لیگ (ن) ایک بار پھر برسراقتدار ہے۔ 2024ء میں فارم 47 کے بل بوتے پر اقتدار سنبھالنے والی مسلم لیگ (ن) کو جرات نہ ہوئی کہ وہ بلدیاتی انتخابات کروانے کا سوچے‘ 2025ء کا سال بھی حیلوں بہانوں سے گزار دیا گیا ہے۔ اچانک الیکشن کمیشن کو نجانے کیا سوجھی کہ انہوں نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرنے کا سوچا اور اکتوبر 2025ء میں فیصلہ کیا کہ دو ماہ میں حلقہ بندی کرنے کے بعد پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کروا دئیے جائیں گے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ن لیگ کی حکومت نے اس پر آمین کہنے کی بجائے 2025ء کا نیا ایکٹ منظور کر دیا ہے۔ یہ سراسر ایک تاخیری حربہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کا کام روک دیا ہے اور پنجاب حکومت کو لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025ء کے رولز بنانے کے لئے ایک ماہ کی مہلت دے دی ہے۔ اب پنجاب حکومت پر منحصر ہے کہ وہ رولز بنانے میں مزید کتنا وقت ضائع کرتی ہے۔ اب تک ہم یہی دیکھتے آئے ہیں کہ مختلف حیلے‘ بہانوں سے بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کی جاتی ہے۔ آج بھی اسی روش کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اور پوری کوشش کی جارہی ہے کہ انتظامی و مالی اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل ہونے سے روکا جائے۔ آج جبکہ دنیا کے تمام مہذب ترقی یافتہ ممالک میں یہ دوڑ لگی ہوئی ہے کہ اپنے قومی بجٹ کا زیادہ سے زیادہ حصہ مقامی حکومتوں کے ذریعے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے۔
پاکستان کے عوام ان بدقسمت ممالک میں شامل ہیں جہاں کے حکمران الٹی روش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود جمہوریت کی بات کی جاتی ہے اور فخر سے سینہ پھیلا کر کہا جاتا ہے کہ ہم جمہوری حکمران ہیں جو جمہوری اقتدار مقامی حکومتوں کو صحیح معنوں میں مالی و انتظامی اختیارات منتقل نہیں کرتا اس کو اپنے آپ کو جمہوری کہلوانے پر شرم آنی چاہیے۔ جمہوریت کے لبادے میں درحقیقت یہ وہ لوگ ہیں جو عوام کے حقوق کے بدترین غاصب ہیں‘ بقول علامہ اقبالؒ ان کے چہرے روشن لیکن اندرون چنگیز سے تاریک تر ہے۔
واپس کریں