دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مقبوضہ جموں وکشمیر میں ناانصافی کی داستان
انعام الحسن کاشمیری
انعام الحسن کاشمیری
انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر اگرچہ دنیا بھر میں معاشرے سے جڑے مختلف طبقات کے حقوق کے بارے میں شدومد سے بات کی جاتی ہے اور پسی ہوئی اقوام، معاشرے، یا طبقہ کی حالت زار پر افسوس کا اظہار کیاجاتاہے۔ اظہارافسوس کے لیے سیمینارز کا سہارا لیاجاتاہے۔ کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں۔ رپورٹیں تیار کرکے شائع کی جاتی ہیں اور سال بھر میں حقوق کی جو پامالی ہوتی ہے، ان کی نشاندہی کرتے ہوئے اصلاح و احوال کی تجاویز مرتب کی جاتی ہیں۔ یہ کام انسانی حقوق کے عالمی ادارے کرتے ہیں۔ انھی اداروں نے مقبوضہ جموں وکشمیر کی حالت زار پر دہائیوں سے رپورٹیں شائع کرنے کا بیڑا اٹھا رکھاہے۔ ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ایشین ہیومن رائٹس کمیشن، انٹرنیشنل فیڈریشن آف ہیومن رائٹس، یواین کمیشن برائے مہاجرین، یواین کونسل بارئے انسانی حقوق، ریڈکراس، تشددکے خلاف عالمی تنظیم نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے ہاتھوں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر سخت احتجاج کرتے ہوئے اپنی اپنی رپورٹیں مرتب کی ہیں جن میں ایسے ہوش ربااقدامات کا ذکر ہے، جو دنیا کے مہذب ممالک کے لیے یقینا سرجھکانے اور شرمندہ ہونے کا باعث ہیں اور خاص طور پر انھی رپورٹوں کی بنیاد پر بھارت کے خلاف عالمی سطح کی چارج شیٹ تیار کی جاسکتی ہے جو اس کے دوست ممالک کے لیے یقینا سخت ہزیمت اور پریشانی کا باعث ہوگی۔
انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی بھارت کے خلاف چارج شیٹ:
انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے وقتاً فوقتاً اپنے بیانات، اخباری رپورٹوں اور دیگراشاعتی مواد میں مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے حوالے سے بھارت کو مورد الزام ٹھہرا یا ہے۔ ان اداروں کی جانب سے بھارت پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلوانے کا علم بردار اور دعوے دار ہونے کے باوجود کشمیریوں کو ان کا بنیادی حق، حق خودارادیت دینے پر تیار نہیں۔ یہ حق مانگنے کی پاداش میں اس نے کشمیریوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھانے کا سلسلہ نہ صرف جاری رکھا ہوا ہے بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل(AI) نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں، غیرقانونی حراستوں، اظہارِ رائے پر قدغن اورسکیورٹی اداروں کی جانب سے پبلک سیفٹی ایکٹ اور ناپسندیدہ غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف خصوصی قانون UAPA کے غلط استعمال پر اعتراض کیا۔ایمنسٹی نے صحافیوں کی ہراسانی، سوشل میڈیا پر گرفتاریوں اور سیاسی قیادت کی نظربندی پر بھی تشویش ظاہر کی اورمقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ شٹ ڈاؤنز کو دنیا کے بدترین اقدامات میں شمار کیا۔اسی طرح ہیومن رائٹس واچ (HRW)نے حسبِ موقع اپنی رپورٹس اور بیانات میں بھارت پر چارج شیٹ عائد کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں شہریوں کے سیاسی حقوق محدود کیے، صحافیوں کو ڈرایا دھمکایااور سخت قوانین کے تحت ہزاروں افراد کو گرفتار کیا۔ علاوہ ازیں ڈومیسائل قانون کے بعد بڑھتی ہوئی آبادیاتی تبدیلی اور انتخابی حلقہ بندی پر بھی تشویش ظاہر کی گئی۔ انسانی حقوق کی سب سے پرانی اور بڑی تنظیموں میں سے ایک انٹرنیشنل فیڈریشن آف ہیومن رائٹس (FIDH)نے بھارت پر الزام عائد کیا کہ وہ مقبوضہ ریاست میں طاقت کے غلط اور شدید استعمال کے باعث انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں میں ملوث ہے۔ طاقت کا یہ استعمال شہری آزادیوں اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والوں کو شدید نقصان پہنچارہاہے۔ طاقت کے اس استعمال میں جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل جیسے واقعات شامل ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR)نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں شہریوں کو اپنی جائیدادوں اور ابائی علاقوں سے بے دخل کرتے ہوئے انھیں مہاجرت کی زندگی اختیار کرنے پر مجبور کرنے جیسے اقدامات، ذہنی دباؤ، علاقائی عدم استحکام کے اثرات پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ اسی طرح اقوام متحدہ ہی کے ایک دوسرے ادارے ہیومن رائٹس کونسل (UNHRC)نے اپنے گاہے گاہے اجلاسوں میں مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کو بھی زیربحث لایا۔ گذشتہ برسوں کے دوران ریاست میں انسانی حقوق کی رپورٹنگ، میڈیا پر پابندیوں اور مذہبی شعائر کی ادائیگی میں شدید رکاوٹوں کا ذکر کیاگیا۔ کہا گیا کہ ریاست میں شہری آزادیوں پر مسلسل قدغن لگائی جارہی ہے اور بھارت پر بار بار زور دیا جاتا رہاکہ وہ عالمی قوانین کا احترام کرے۔ ریڈ کراس (ICRC)پر اگرچہ چند برسوں سے مقبوضہ ریاست میں رسائی پر پابندی عائد ہے لیکن اس کے باوجود ادارے کی ریاستی حالات پر پوری نظر ہے۔ ریڈ کراس ریاست میں آبادی کی تکالیف، مواصلاتی پابندیوں اور طبی رسائی میں مشکلات کا ذکر کرتی ہے۔ تشدد کے خلاف عالمی تنظیم او ایم سی ٹی (World Organization Against Torture)جس کے دفاتر جنیوا، بیلجئیم اور تیونس میں قائم ہیں، نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں حراستی تشدد، جبری گمشدگی، اور نوجوانوں پر طاقت کے زیادہ استعمال پر سخت ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ بھارت طاقت کے غلط، اندھادھند اور گمراہ کن استعمال کے ذریعے انسانی حقوق کو بری طرح پامال کررہاہے۔ تنظیم نے ماورائے عدالت قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ایشیئن ہیومن رائٹس کمیشن (AHRC)نے ریاست میں مسلسل جاری محاصرہ، طاقت کے کچل دیے جانے والے خوفناک استعمال، اور شہری حقوق کی شدید پامالی کا اپنی رپورٹس میں ذکر کرتے ہوئے بھارتی فوج پر متعدد الزامات عائد کیے ہیں۔
سیاسی آزادیوں پر سخت پابندیاں:
2019 کے بعد سے ریاست میں سیاسی سرگرمیوں پر سخت قدغنیں برقرار ہیں۔اگرچہ امسال ریاست میں انتخابات بھی منعقد ہوئے اور کٹھ پتلی عمر فاروق حکومت معرض وجود میں آئی لیکن اس کے باوجود خوف و ہراس، تشدد،مقدمات، گمشدگیوں کی فضا مسلسل قائم ہے۔ حریت قیادت، سول سوسائٹی ارکان اور سیاسی کارکنان پر مقدمات یا نظر بندیاں جاری ہیں۔
اظہارِ رائے اور صحافت کولاحق خطرات:
صحافیوں کی گرفتاری، ہراسانی اور پاسپورٹ منسوخی جیسے واقعات بڑھ رہے ہیں۔”پریس کونسل آف انڈیا“ سمیت عالمی میڈیا واچ ڈاگز نے خبردار کیا ہے کہ کشمیر میں آزاد رپورٹنگ تقریباً ناممکن ہو چکی ہے۔20 نومبر کو جموں و کشمیر پولیس نے سرینگر میں کشمیر ٹائمز کے بیورو آفس پر اچانک چھاپا مارا۔دفتر میں موجود سامان کی تلاشی لی گئی،ریکارڈ اور آلات کی جانچ پڑتال کی گئی اوردفتر کا کچھ حصہ عارضی طور پر بند بھی کیا گیا۔ اگرچہ پولیس نے اسے معمول کی کارروائی کہا لیکن اسے جموں و کشمیر میں 2019 کے بعد سے میڈیا اداروں پرتلاشی، طلبیاں، چھاپے اوردفاتر کی بندش جیسی کارروائیاں بڑھ گئی ہیں، اور اس واقعے کو اسی پس منظر میں دیکھا گیا جس پر صحافتی تنظیموں یہاں تک کہ بھارت میں قائم میڈیا تنظیموں نے بھی سخت احتجاج کیا اور اسے آزادیئ صحافت کا گلا گھونٹنے کے مترادف قراد دیا۔ سوشل میڈیا پر پوسٹس کی بنیاد پر بھی متعدد نوجوانوں کو حراست میں لیا جا رہا ہے۔خاص طور پر 10نومبر کو دہلی بم دھماکے کے بعد کسی کے معمولی کمنٹ کے نتیجے میں بھی اسے زیرحراست لیا جارہاہے۔
جائیدادوں کاانہدام!
قابض فوج حریت پسندوں اور آزادی کے متوالوں میں حق خودارادیت کے حصول کی تڑپ ختم کرنے اور انھیں اپنے مشن سے برگشتہ کرنے کے لیے ان کی جائیدادوں کا انہدام بھی کررہی ہے۔ اس اقدام کو بھی ایک جنگی حربے کے طور پر اختیار کیاجاتاہے۔ چنانچہ جس پر بھی جہادی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کاشک ہوا، اس کا گھر، دکان یا جائیداد وغیرہ فوری طور پر غیرقانونی قرار دیتے ہوئے ڈھا دی جاتی ہے۔ 10نومبر کو دہلی میں لال قلعہ کے باہر میٹروسٹیشن پر کار بم دھماکے کے بعد پلوامہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرعمر محمد، ڈاکٹرمزمل شکیل اور ڈاکٹر مزمل احمد گنائی جبکہ قاضی گنڈ کے ڈاکٹر عدیل مجید راٹھور پر بم دھماکے کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کے گھروں کو منہدم کردیا گیا۔ یہ ڈاکٹرفریدآباد کے ہسپتال میں کام کرتے تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ 9نومبر کوڈاکٹرعمر محمد کے علاوہ دیگر ڈاکٹروں کو بڑی مقدار میں اسلحہ رکھنے کا الزام لگاتے ہوئے گرفتار کیا گیا جب کہ ڈاکٹرعمرمحمد پر الزام لگایا گیا کہ ان کی گاڑی دھماکے میں استعمال ہوئی۔ 5اگست 2019 کے بعد سے اب تک 12سو کے لگ بھگ جائیدادوں کو تباہ کیا گیا ہے۔
لاپتا ہونے اور ماورائے عدالت کارروائیوں کے الزامات:
انسانی حقوق تنظیموں کی رپورٹوں کے مطابق جبری گمشدگیاں، تشدد، اور جعلی مقابلوں جیسے واقعات مسلسل رپورٹ ہورہے ہیں۔ چند کیسوں کا مقدمہ درج ہوجاتاہے لیکن تحقیقاتی عمل شفاف نہ ہونے کی وجہ سے مظلوم خاندانوں کو انصاف نہیں مل رہا۔
بدنام زمانہ قوانین کا سخت اطلاق:
مقبوضہ جموں وکشمیر ایک ایسی ریاست ہے جہاں افسپا جیسے غیراخلاقی انسانیت سوز قوانین کا اطلاق دہائیوں سے جاری ہے۔ ان قوانین کے تحت کسی بھی شہری کو حراست میں لیاجاسکتا ہے، اس پر تشدد کیاجاسکتا ہے اور یہاں تک کہ اسے مجاہد قرار دیتے ہوئے شہید بھی کیاجاسکتاہے۔
شناخت کا خاتمہ اور آبادیاتی تبدیلی کا عمل:
ڈومیسائل قانون کے بعد لاکھوں غیر ریاستی افراد کو شہریت نما سرٹیفکیٹ جاری ہو چکے ہیں۔نئی اسمبلی نشستوں کی حلقہ بندی نے سیاسی تناسب کو بدلنے کی سمت دھکیل دیا ہے، جسے مقامی لوگ”سیاسی انجینئرنگ“ قرار دیتے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت تک 5ملین سے زائد غیرریاستی افراد کو ڈومیسائل جاری کیے جاچکے ہیں۔ ان اقدامات کو کشمیری قوم اپنی شناخت پرحملے اور اس کے خاتمے سے تعبیر کررہی ہے۔ مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کا بھارتی مقصد دراصل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت رائے شماری عمل میں لاتے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیر کو مکمل طور پر ہڑپ کرنا ہے۔
مذہبی و سماجی پابندیاں:
مذہبی و سماجی پابندیوں کی آڑ میں دراصل جہادی و آزادی کی سرگرمیوں کو معطل کرنے کی بے ثمر اقدامات بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ متعدد علاقوں میں حریت پسندوں کی سرگرمیوں کے مراکز مساجد کی بندش عام ہے۔ محرم کے جلوسوں، جمعے کی نمازوں اور بڑے اجتماعات پر روک جاری ہے۔مساجد کے خطیبوں اور اماموں کی نگرانی اور بعض کی معطلی کے معاملات بھی رپورٹ ہوتے رہے۔
حریت قیادت کی نظربندی، گرفتاری:
حریت قیادت کی نظربندی اور گرفتاری اب کشمیر میں معمول کی بات سمجھی جارہی ہے۔ مقبول بٹ سے لے کر افضل گورو کی شہادتوں کے بعد اب یاسین ملک، شبیر شاہ، آسیہ اندرابی، خرم پرویز، اور دیگر سینکڑوں حریت رہنماؤں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کوگرفتار یا نظربند کیاگیا ہے۔ ان کی عدالت تک رسائی ممکن نہیں۔ یاسین ملک کو اگرچہ عدالت تک رسائی حاصل ہے لیکن اس زمرے میں بھی ان کے بیانات کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایاجاتا اور ان پر اپنی مرضی کی کارروائی تھونپ دی جاتی ہے۔
معاشی مشکلات اور مواصلاتی پابندیاں:
بار بار انٹرنیٹ سلوڈاؤن، سوشل میڈیا پابندیاں اور سکیورٹی ناکوں کی وجہ سے کاروبار شدید متاثر ہو رہے ہیں۔سیاحت کی بحالی کے باوجود خوف و جبر کا ماحول جاری ہے۔تاجروں کا کہنا ہے کہ انھیں بار بار گرفتار کرلیا جاتاہے۔ کبھی شناخت پریڈ کے نام پر اور کبھی گواہی کے نام پر ان کے لیے ایک لحاظ سے کام کرنا دشوار بنادیا گیا ہے۔ حال ہی میں وادی سے برآمد کیے جانے والے پھلوں سے لدے سینکڑوں ٹرک جموں ہائی وے پر ناکوں پرکئی دن تک کھڑے رہے تاکہ سب سامان خراب ہوجائے۔
خواتین اور بچوں کی حالت:
خواتین کے خلاف تشدد، چیک پوسٹوں پر بدسلوکی اور ذہنی دباؤ کے کیسز بڑھ رہے ہیں۔بچوں کی جسمانی اور ذہنی صحت پر سخت سکیورٹی ماحول کے منفی اثرات واضح ہیں۔
خواتین سے زیادتی جنگی ہتھیار:
مقبوضہ جموں وکشمیر میں خواتین سے زیادتی کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیاجارہاہے۔ یہ سب سے سنگین، خطرناک اور انتہائی مکروہ فعل ہے جو بھارت کے چہرے پر کلنک کے ٹیکے کی طرح چسپاں ہے۔ 2019سے تاحال ڈیڑھ سو کے قریب خواتین کو زیادتی کانشانہ بنایاگیا۔ عصمت دری کے یہ واقعات انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی نوعیت کے ہیں۔ انسانی حقوق کی پامالی کا یہ سب سے زیادہ افسوس ناک اور غم ناک پہلو ہے۔
یہ اور اس طرح کے مزید کئی ایسے مسائل ہیں جو انسانی حقوق کے زمرے میں کشمیریوں کو درپیش ہیں۔ ان کا مطالبہ محض حق خودارادیت کا حاصل ہے لیکن بھارت ان پر جس طرح طاقت کا وحشیانہ اور اندھا دھند استعمال کررہاہے، آج کے مہذب دور میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ عالمی اداروں خاص طور پر اقوام متحدہ کو بھارت کے ان غیرانسانی وغیرمہذب اقدامات کی سخت سرزنش کرتے ہوئے اسے نہ صرف ا ن سے روکے جانے پر مجبور کیاجاناچاہیے بلکہ کشمیری قوم کو حق خودارادیت دیے جانے کے انتظامات بھی بروئے کار لائے جانے چاہئیں۔
واپس کریں