
اگر برطانیہ میں واقعی اسلاموفوبیا ہوتا تو کبھی صادق خان لندن کے میئر نہ بنتے، اور نہ ہی آج برطانیہ کی وزیرِ داخلہ ایک مسلمان خاتون ہوتیں۔ جہاں ٹومی رابنسن کی سوچ غلط ہے، وہیں مسلمانوں کو بھی اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی لانی ہوگی۔
برطانوی سماج پچھلے ستر سالوں سے جس سماجی ہیئت میں قائم تھا، اب تبدیلی کے مراحل میں ہے۔ یہ ایک سماجی حقیقت ہے کہ انسانی نفسیات میں جب ایک سوچ نسل در نسل پروان چڑھتی ہے تو دو نسلوں کے بعد اس میں تبدیلی آنا ایک فطری عمل ہے۔ بدلتے سیاسی، سماجی اور ثقافتی حالات ہوں یا بڑی سائنسی ایجادات، انسانی سوچ میں ارتقا کا عمل جاری رہتا ہے۔ یہ تبدیلی کبھی مثبت ہوتی ہے اور کبھی منفی، اور یہ اس بات پر منحصر ہے کہ زمانے کے حالات انسانی ذہن کو کس طرف لے جاتے ہیں۔
دوسری جنگِ عظیم سے پہلے برطانوی سوچ مختلف تھی۔ اس وقت برطانیہ واقعی گریٹ برٹن تھا، ایک سامراجی قوت جس کا پرچم پانچ براعظموں میں لہرا رہا تھا۔ یورپ، ایشیا، افریقہ، آسٹریلیا اور امریکہ تک برطانوی نوآبادیات پھیلی ہوئی تھیں۔ کہا جاتا تھا کہ یونین جیک کبھی سرنگوں نہیں ہوتا اور سلطنت برطانیہ میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا۔ مگر دوسری جنگ عظیم نے برطانوی سوچ اور سماج میں بڑی تبدیلی برپا کر دی۔ برطانیہ نے فیصلہ کیا کہ اب وہ اپنا استعماری اور سامراجی کردار ترک کر کے ایک فلاحی ریاست قائم کرے گا۔ ایسی ریاست جہاں انسان سازی ہو، بنیادی انسانی حقوق کا راج ہو، ریاست کا کوئی مذہب نہ ہو اور آزادیِ اظہار کو فوقیت حاصل ہو۔ یوں برطانیہ ایک سامراج سے بدل کر ایک فلاحی ریاست بن گیا اور دنیا بھر کے مظلوم اور حقوق سے محروم لوگوں کے لیے پناہ گاہ بن گیا۔
گذشتہ دو برسوں میں، خاص طور پر کورونا کے بعد، برطانوی سماجی سوچ میں ایک بار پھر تبدیلی کے آثار واضح ہیں۔ اگرچہ فلاحی ریاست بدستور قائم ہے، آزادیِ اظہار کا پرچم بلند ہے اور سیاسی پناہ کا سلسلہ بھی جاری ہے، مگر برطانوی معاشرتی رویوں میں ایک نیا رجحان ابھر رہا ہے۔ "ہمارا برطانیہ لوٹا دو" کے نعرے کے ساتھ مقامی گورے احتجاجی سیاست میں سرگرم ہیں۔ ٹومی رابنسن کی قیادت میں یہ تحریک زور پکڑ رہی ہے، اور اس کے دباؤ کے نتیجے میں برطانوی حکومت نے ویزا، امیگریشن اور سیاسی پناہ کے قوانین میں سخت تبدیلیاں کی ہیں۔
ٹومی رابنسن بڑھتی ہوئی مسلم شدت پسندی کے سخت خلاف ہے اور وہ برطانوی سماج کو اس سے بچانا چاہتا ہے۔ اس کے ہم خیال لوگ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز پھیلاتے ہیں جن میں مسلمان عورتیں برقعہ پہن کر لندن یا دیگر شہروں میں گھومتی نظر آتی ہیں، اور پھر اسے "کابل ان انگلینڈ" قرار دیتے ہیں۔ کچھ پرانے ذہن کے گورے اسے اسلاموفوبیا قرار دیتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ برطانوی مسلمان بھی اپنی اصلاح پر آمادہ نہیں۔ وہ سماج میں گھلنے ملنے کے بجائے اپنے عقائد کی نمایاں نمائش کے ذریعے خود کو دنیا سے منفرد ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
اگر برطانیہ میں واقعی اسلاموفوبیا ہوتا تو کبھی صادق خان لندن کے میئر نہ بنتے، اور نہ ہی آج برطانیہ کی وزیرِ داخلہ ایک مسلمان خاتون ہوتیں۔ جہاں ٹومی رابنسن کی سوچ غلط ہے، وہیں مسلمانوں کو بھی اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی لانی ہوگی۔ ایک طرف وہ فخر سے ان گرجا گھروں کو خرید کر مسجدوں میں بدل رہے ہیں جنہیں مقامی حکومت فروخت کرتی ہے، تو دوسری طرف مسلمان اخلاقی جرائم میں ملوث ہو کر جیلوں میں بھی پہنچ رہے ہیں۔
خاص طور پر افریقی نژاد مسلمانوں کو اپنی حکمتِ عملی ازسرنو ترتیب دینا ہوگی، ورنہ یہ خطرہ ہے کہ پرانے ذہن کے گورے بھی ان کی حمایت چھوڑ دیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ مسلم سماج کے لیے ایک بڑا المیہ ہوگا۔ یاد رکھنا چاہیے کہ برطانیہ بنیادی طور پر گوروں کا ملک ہے اور یہ کبھی اپنی اصل ہیئت تبدیل نہیں کرے گا۔
آج برطانیہ کی آبادی تقریباً سات کروڑ ہے، جن میں مسلمان ستر لاکھ کے قریب ہیں۔ لیکن صرف دھڑا دھڑ بچے پیدا کرنے سے بہتری نہیں آئے گی۔ اصل بہتری صرف تعلیم حاصل کرنے اور برطانوی سماج میں گھل مل کر رہنے سے ہی ممکن ہے۔
واپس کریں