
دنیا اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے جہاں امریکہ کی دہائیوں پر محیط بالادستی کو چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی طاقت سخت چیلنج کر رہی ہے۔ چین نے نہ صرف اپنی معیشت کو مستحکم کیا ہے بلکہ ان شعبوں میں بھی عالمی اجارہ داری قائم کر لی ہے جن پر جدید دنیا کا مستقبل منحصر ہے۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ امریکہ کو چین سے سب سے بڑا مسئلہ ہے:
چین کے عالمی غلبے والے 10 بڑے شعبے
1 نایاب معدنیات (Rare Earth Mining)
دنیا کی اسٹریٹجک صنعتیں — دفاعی ٹیکنالوجی، الیکٹرونکس اور خلائی پروگرام — ان معدنیات پر انحصار کرتی ہیں۔ چین ان کی عالمی پیداوار کا تقریباً 70٪ فراہم کرتا ہے۔
2 نایاب معدنیات کی پراسیسنگ (Rare Earth Processing)
محض نکالنا ہی نہیں بلکہ پراسیسنگ میں بھی چین کا قبضہ ہے۔ دنیا کی 90٪ سے زائد پراسیسنگ چین میں ہوتی ہے، جس سے امریکہ سمیت باقی دنیا اس پر انحصار کرنے پر مجبور ہے۔
3 شمسی پینل پیداوار (Solar Panels)
گرین انرجی کے مستقبل میں سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والے شعبے میں چین کی برتری شاندار ہے۔ دنیا کے 80–85٪ شمسی پینل چین میں بنتے ہیں۔
4 عالمی مینوفیکچرنگ آؤٹ پٹ (Global Manufacturing)
چین کو بجا طور پر "دنیا کی فیکٹری" کہا جاتا ہے۔ عالمی مینوفیکچرنگ میں اس کا حصہ تقریباً 29٪ ہے۔
5 الیکٹرانکس برآمدات (Electronics Exports)
کمپیوٹرز، فونز اور دیگر آلات کی عالمی برآمدات میں چین کا حصہ 33٪ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر تین میں سے ایک الیکٹرانک پراڈکٹ چین سے آتی ہے۔
6 ذاتی کمپیوٹرز کی پیداوار (PCs)
دنیا بھر میں استعمال ہونے والے ذاتی کمپیوٹرز کا تقریباً 90.6٪ چین میں تیار ہوتا ہے۔ HP، Dell اور Lenovo جیسے بڑے برانڈز بھی چینی فیکٹریوں پر انحصار کرتے ہیں۔
7 اسمارٹ فونز کی پیداوار (Smartphones)
دنیا کے 70.6٪ اسمارٹ فونز چین میں بنائے جاتے ہیں۔ Apple اور Samsung بھی اپنی بڑی پروڈکشن چین سے کراتے ہیں۔
8 ایئر کنڈیشنرز کی پیداوار (Air Conditioners)
گھریلو اور صنعتی سطح پر دنیا کے تقریباً 80٪ ایئر کنڈیشنرز چین میں تیار ہوتے ہیں۔
9 لیتھیم آئن بیٹریاں (Lithium-ion Batteries)
برقی گاڑیوں اور جدید آلات کی بنیاد یہی بیٹریاں ہیں۔ ان کی عالمی پیداوار میں چین کا حصہ تقریباً 77٪ ہے۔ Tesla سمیت دنیا کی بڑی کمپنیاں ان بیٹریوں کے لیے چین پر انحصار کرتی ہیں۔
10 اسٹیل پیداوار (Steel Production)
بنیادی صنعت اور تعمیرات کا لازمی عنصر۔ دنیا کے تقریباً 54٪ اسٹیل چین تیار کرتا ہے۔
...........
چین کی سائنسی تحقیق اور یونیورسٹیز: عالمی اسٹیج پر تیز اُبھار
1) Nature Index: چینی اداروں کی نمایاں برتری
چائنیز اکیڈمی آف سائنسز (CAS) 2025 کی عالمی فہرست میں نمبر 1 ہے۔ پہلی دس پوزیشنز میں چین کی متعدد جامعات/ادارے شامل ہیں: USTC، ژی جیانگ، بیجنگ یونیورسٹی، UCAS، سنگھوا، نانجنگ اور شنگھائی جیاؤ ٹونگ — یہ سب 2024 کے مقابلے میں شیئر میں نمایاں اضافہ دکھاتے ہیں۔
اگر صرف چین کے اندر کی درجہبندی دیکھی جائے تو 2025 میں CAS کے بعد پیکنگ یونیورسٹی، سنگھوا یونیورسٹی، ژی جیانگ یونیورسٹی اور SJTU تیزی سے اوپر آئے ہیں (Nature/Science مجموعہ)، جس سے فزکس، کیمسٹری، لائف سائنسز اور ارتھ سائنسز میں مضبوطی ظاہر ہوتی ہے۔
2) عالمی یونیورسٹی رینکنگز میں پیش رفت
ٹائمز ہائر ایجوکیشن (THE) ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ 2025 میں:
سنگھوا 12ویں، پیکنگ 13ویں، فودان =36ویں، ژی جیانگ =47ویں، SJTU 52ویں، USTC =53ویں— یہ پچھلے برسوں کے مقابلے میں مسلسل اوپر کی سمت کا رجحان ہے۔
QS ایشیا 2025 میں پیکنگ یونیورسٹی #1 رہی، جو خطے میں چینی اداروں کے اثر و رسوخ کی علامت ہے۔
3) تحقیق پر سرمایہ کاری (R&D) اور حجمِ پیداوار
چین کا R&D خرچ 2024 میں 3.613 ٹریلین یوآن تک پہنچا (سال بہ سال 8.3% اضافہ)؛ R&D شدت 2.68% آف GDP۔ یہ مستقل پالیسی سپورٹ اور لیب انفراسٹرکچر کی توسیع کو ظاہر کرتا ہے۔
عالمی سائنسی اشاعتوں میں چین کا حصہ اور اثر نمایاں بڑھا ہے؛ نیشنل سائنس فاؤنڈیشن (NSF) کے مطابق چین بیس برس میں ہائیلی سائٹڈ مضامین کے حصے میں مسلسل اضافہ لا رہا ہے، جبکہ امریکہ کا تناسب کچھ کم ہوا ہے۔
4) ہائی امپیکٹ ریسرچ: Highly Cited Researchers (Clarivate)
Clarivate HCR 2024 کے مطابق مین لینڈ چین 1,405 محققین (20.4%) کے ساتھ دنیا میں #2 ہے— امریکہ کے بعد؛ CAS (308) دنیا کی #1 تنظیم رہی، اور سنگھوا (92) ٹاپ اداروں میں شامل ہے۔ یہ “ٹیلنٹ ڈینسٹی” اور تحقیقی معیار دونوں کی علامت ہے۔
5) شعبہ جاتی ہاٹ اسپاٹس اور اثر
مٹیریلز سائنس، کیمسٹری، فزکس، ای آئی/ڈیٹا سائنس، بیٹری/انرجی اسٹوریج میں چینی لیبز کی شراکت تیزی سے بڑھی ہے؛ Nature/Springer کے رواں تجزیات میں AI اشاعتیں اور حوالہ جات بھی چین کی مضبوط پوزیشن دکھاتے ہیں۔
امریکہ کے خدشات:
امریکہ کے لیے یہ صورتحال صرف معاشی نہیں بلکہ اسٹریٹجک اور سیکیورٹی چیلنج بھی ہے:
معاشی برتری: امریکی کمپنیوں کو عالمی مارکیٹ میں سخت مقابلے کا سامنا ہے۔
ٹیکنالوجی پر انحصار: امریکہ جدید ٹیکنالوجی کے اہم خام مال کے لیے چین کا محتاج ہے۔
فوجی و دفاعی خدشات: نایاب معدنیات اور الیکٹرانکس کے بغیر جدید ہتھیار ممکن نہیں، اور یہ سب چین کے ہاتھ میں ہے۔
عالمی اثرورسوخ: چین کی بیلٹ اینڈ روڈ پالیسی اور سرمایہ کاری امریکہ کے روایتی اتحادیوں کو بھی اس کے قریب لا رہی ہے۔
چین نے صرف ترقی نہیں کی بلکہ دنیا کو اپنے اوپر انحصار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ امریکہ کے لیے یہ سب سے بڑی پریشانی ہے کہ وہ پہلی بار کسی ایسے حریف کے سامنے کھڑا ہے جس کی طاقت محض فوجی نہیں بلکہ معاشی، تکنیکی اور صنعتی میدانوں میں بھی غالب ہے۔
واپس کریں