سیلاب: لاکھوں افراد کی نقلِ مکانی، امدادی سرگرمیوں میں اضافہ

پنجاب میں سیلاب سے قصور اور ملتان شدید خطرے میں ہیں۔ اسی خطرے کی وجہ سے لاکھوں افراد نقل مکانی کرچکے ہیں۔ پنجاب کے سیلاب والے علاقوں میں بارش کا سلسلہ تادمِ تحریر جاری ہے اور جہلم میں ندی نالوں کے بپھرنے کی اطلاعات ہیں۔ ستلج میں گنڈا سنگھ والا پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ سیلاب سے چناب نے 1169، راوی نے 478 اور ستلج نے391 دیہات کو متاثر کیا۔ چناب کا سیلابی ریلا جھنگ میں داخل ہونے سے دیہات ڈوب گئے۔ سینکڑوں ایکڑ پر فصلیں تباہ اور رابطہ سڑکیں پانی میں غائب ہو گئیں۔ ملتان میں سیلاب سے شجاع آباد کی فصلوں میں پانی داخل ہوگیا اور 140 دیہات پانی سے متاثر ہوئے جبکہ بارش کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سلسلے میں رین ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ بلوکی پر بہاؤ دو لاکھ 11 ہزار کیوسک ہے، متاثرہ علاقوں میں ہزاروں ایکڑ پر فصلیں تباہ ہو گئیں۔ نارووال میں نہر ایم آر لنک کا بند ٹوٹ گیا جس سے 20 دیہات متاثر ہو گئے۔ راوی میں جسٹر اور شاہدرہ پر پانی کے بہاؤ میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
بھارتی آبی جارحیت کے باعث 1988ء کے بعد کا سب سے بڑا سیلابی ریلا آیا۔ گنڈا سنگھ والاکے مقام پر پانی کا بہائو 2 لاکھ 53ہزار 68کیوسک ہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے لوگوں کو کیمپس میں خوراک اور جانوروں کے چارے تقسیم کیے جا رہے ہیں۔ ضلع قصور سنٹرل مانیٹرنگ روم، چونیاں، قصور اور پتوکی میں بڑے کیمپس فعال کر دیے گئے ہیں۔ سیلاب متاثرین کو فلڈ ریلیف کیمپس میں رہائش، خوراک، پانی و دیگر سہولیات کی فراہمی کو بروقت یقینی بنایا جائے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف کی ہدایت پر حکومت سیلاب متاثرین کی جان و مال کے تحفظ کے لیے دن رات کوشاں ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے حالیہ مون سون بارشوں اور سیلاب سے تباہی کی رپورٹ جاری کردی۔ دو روز کے دوران 13 اموات پنجاب میں رپورٹ ہوئیں جبکہ خیبر پختونخوا، سندھ اور کشمیر میں ایک ایک ہلاکت رپورٹ ہوئی۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران طوفانی بارشوں اورسیلاب کے باعث 831 افراد جاں بحق 1121زخمی ہوئے۔ بارشوں اور سیلاب کے باعث پنجاب میں 191، خیبر پختونخوا میں 480 ، سندھ میں 58، بلوچستان میں 24 اور گلگت بلتستان میں 41، آزاد کشمیر میں 29، اور اسلام آباد میں 8 افراد جاں بحق ہوئے۔
آخری اطلاعات کے مطابق مرالہ کے مقام پر پانی کی آمد واخراج 96152 کیوسک، خانکی ہیڈ ورکس پر پانی کی آمد واخراج 229100 کیوسک، قادر آباد کے مقام پر پانی کی آمد واخراج 203862 کیوسک جبکہ تریموں ہیڈ ورکس پر پانی کی آمد واخراج 184108 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔ ضلعی انتظامیہ نے ہنگامی اقدامات کرتے ہوئے نشیبی اور بیٹ کے علاقوں میں موجود مکینوں کو بھاری تعداد میں محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا۔ بیٹ کے اکثر دیہات خالی کرا لیے گئے ہیں جبکہ سکولوں اور سرکاری عمارتوں میں عارضی پناہ گاہیں قائم کی گئی ہیں۔ سیلابی ریلے کے پیش نظر ہیڈ محمد والا اور شیر شاہ کے مقامات پر خصوصی نگرانی بڑھا دی گئی ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق دریائے چناب کے کنارے واقع نشیبی علاقوں میں پانی داخل ہو چکا ہے جس کے باعث آم اور مالٹے کے باغات سمیت کپاس اور مکئی کی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ زرعی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر پانی کا دباؤ اسی طرح بڑھتا رہا تو ہزاروں ایکڑ زمین زیرِ آب آ سکتی ہے۔ ادھر، دریائے سندھ میں منگل اور بدھ کی رات سیلاب کا خدشہ ہے جس سے ایک اندازے کے مطابق 16 لاکھ لوگ متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ بھارت کی آبی جارحیت پاکستان کے لیے مسلسل مسائل پیدا کر رہی ہے اور وہاں ایسے لوگ قابلِ ذکر تعداد میں موجود ہیں جو اسے اپنی حکومت کا کارنامہ سمجھتے ہیں لیکن ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ پاکستان میں یکے بعد دیگرے قائم ہونے والی حکومتوں نے اس سلسلے میں کیا ٹھوس اقدامات کیے۔ ایسی صورتحال کے پیدا ہونے پر ہر بار سیاسی قیادت کی طرف سے بیانات آتے ہیں کہ ایسا پہلے نہیں ہوا، بڑی تباہی ہے، مناسب اقدامات کیے جا رہے ہیں وغیرہ لیکن جو کچھ عملی طور پر ہوتا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ہم دشمن سے اچھے کی توقع رکھ کر خود کو نقصان سے نہیں بچا سکتے بلکہ خود ٹھوس اقدامات کر کے اس پریشانی سے بچ سکتے ہیں جس کا ہمیں ہر دو چار برس کے بعد سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دشمن جو کر رہا ہے ہمیں اس سے اس کے علاوہ اور کوئی توقع نہیں رکھ سکتے۔
بین الاقوامی ادارے ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن کے موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے کا امکان ہے لیکن ہمارے مقتدر طبقات کو قومی خزانے کی لوٹ مار سے فرصت ملے تو وہ ایسی کسی بات پر دھیان دیں۔ ماہرین کئی بار بتا چکے ہیں کہ ان مسائل پر کیسے قابو پایا جا سکتا لیکن کوئی بھی حکومت ان کی ہدایات پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔ یہ ایک افسوس ناک اور تکلیف دہ حقیقت ہے کہ ہمارے مقتدر طبقات سیلاب کو ایک ایسا وسیلہ سمجھتے ہیں جس سے ان کے لیے مزید لوٹ مار کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ ان طبقات کو اب اس ملک اور اس کے عوام پر کچھ تھوڑا سا رحم کھانا چاہیے تاکہ ہر دو چار برس کے بعد سیلاب کے باعث ہونے والے جانی و مالی نقصان میں کمی لائی جا سکے۔ اس سلسلے میں قومی سطح پر ایک جامع مشاورتی عمل شروع کیا جانا چاہیے اور تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد ایسی حکمت عملی بنائی جانی چاہیے جو آنے والی دہائیوں میں ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں سے محفوظ و مامون بنانے میں مددگار ثابت ہو۔
واپس کریں