محمد ریاض ایڈووکیٹ
زندگی ہمیشہ بڑے خطبوں، موٹی کتابوں یا رسمی درس گاہوں سے سبق نہیں دیتی۔ بعض اوقات کسی شخص کی سادہ سی بات انسان کے اندر ایسی ہلچل مچا دیتی ہے جو برسوں کی خاموشی توڑ دیتی ہے۔ چند روز قبل دیگر سائلین کیساتھ ایک سرکاری دفتر کی راہداری میں بیٹھا افسرِمجازکی آمد کا انتظار کر رہا تھا۔ فضا میں بے زاری، چہروں پر تھکن اور آنکھوں میں بے یقینی تھی۔ اسی دوران قریب بیٹھے افراد میں سے ایک شخص کی گفتگو کانوں میں پڑی۔ ''کہ انسان پوری زندگی تین خوف اپنے ساتھ اٹھائے پھرتا ہے: عزت کا خوف، رزق کا خوف اور موت کا خوف''۔حالانکہ ان تینوں کی بابت اللہ کریم کی واضح ہدایات موجود ہیں کہ عزت، رزق اور موت، اللہ کریم کے اختیار میں ہیں۔
یہ جملے سن کر یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے ہمارے اجتماعی رویّے کی تصویر چند لفظوں میں کھینچ دی ہو۔ یہ تینوں چیزیں محض الفاظ نہیں بلکہ انسانی فکر کے وہ محور ہیں جن کے گرد ہماری سوچ، ہمارے فیصلے اور ہماری کمزوریاں گھومتی ہیں۔ اس ایک بات نے مجھے کئی دن سوچ میں مبتلا رکھا کہ ہم مسلمان ہونے کے باوجود انہی خوفوں کے سائے میں کیوں جیتے ہیں۔ بطور مسلمان ہمارا ایمان یہ ہے کہ عزت و ذلت، رزق اور زندگی و موت، یہ سب اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں۔ قرآن کریم ان حقائق کو نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ اس کے باوجود ہماری عملی زندگی اس یقین کی نفی کرتی دکھائی دیتی ہے۔ ہم زبان سے تو اللہ پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں، مگر عمل میں انسانوں سے ڈرتے ہیں، انہی پر بھروسا کرتے ہیں اور انہی کو فیصلہ کن طاقت سمجھ لیتے ہیں۔
سب سے پہلے بات عزت کی۔ عزت وہ چیز ہے جس کے لیے انسان اپنا لہجہ بدل لیتا ہے، سچ کو چھپا لیتا ہے اور کئی بار اپنے ضمیر کو بھی نظرانداز کر دیتا ہے۔ حالانکہ قرآن صاف لفظوں میں بتاتا ہے کہ عزت دینے والا صرف اللہ ہے۔ سورۃ آلِ عمران میں ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کر دیتا ہے۔ جب عزت اللہ کے ہاتھ میں ہے تو پھر ہم انسانوں کے سامنے کیوں جھکتے ہیں؟ کیوں ہم حق بات کہنے سے اس خوف سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں کہ کہیں ہماری سماجی حیثیت، عہدہ یا تعلقات متاثر نہ ہو جائیں؟ حقیقت یہ ہے کہ عزت کی تلاش میں ہم اکثر وہ کام کر بیٹھتے ہیں جو خود ہماری عزت کو مجروح کر دیتے ہیں۔
دوسرا بڑا خوف رزق کا ہے۔ رزق صرف کھانے پینے کی چیزوں تک محدود نہیں بلکہ یہ سکون، اطمینان اور وقار کا نام بھی ہے۔ قرآن کریم میں بار بار یہ حقیقت دہرائی گئی ہے کہ زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو۔ اللہ خود فرماتا ہے کہ وہ سب سے بہتر رازق ہے۔ اس کے باوجود ہمارا حال یہ ہے کہ ہم رزق کے معاملے میں انسانوں کو فیصلہ ساز سمجھ لیتے ہیں۔ ہم یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ فلاں شخص ہمیں نواز سکتا ہے یا محروم کر سکتا ہے۔ اسی سوچ کے تحت ہم اپنی خودداری، دیانت اور سچائی کو قربان کر دیتے ہیں۔ رزق کے خوف نے ہمیں اتنا کمزور کر دیا ہے کہ ہم حلال و حرام کی تمیز بھی کھوتے جا رہے ہیں۔
تیسری اور سب سے اٹل حقیقت موت ہے۔ موت وہ سچ ہے جس سے کوئی انکار ممکن نہیں۔ قرآن مجید میں بار بار واضح کیا گیا ہے کہ زندگی دینے والا بھی اللہ ہے اور موت دینے والا بھی وہی۔ سورۃ الجاثیہ میں فرمایا گیا کہ اللہ ہی تمہیں زندہ کرتا ہے، پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے، اور پھر قیامت کے دن سب کو جمع کرے گا۔ جب زندگی اور موت کا اختیار اللہ کے پاس ہے تو پھر ہمیں حق بات کہنے میں خوف کیوں محسوس ہوتا ہے؟ ہم ظلم کو دیکھ کر خاموش کیوں رہتے ہیں؟ ہمیں کیوں یہ اندیشہ لاحق ہو جاتا ہے کہ سچ بولنے سے ہماری جان، ہمارا مستقبل یا ہمارا روزگار خطرے میں پڑ جائے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ نہ کوئی ہماری زندگی گھٹا سکتا ہے اور نہ بڑھا سکتا ہے۔
اصل مسئلہ علم کی کمی نہیں بلکہ یقین کی کمزوری ہے۔ ہمیں سب معلوم ہے، قرآنی آیات اور احادیث بھی یاد ہیں، عقائد بھی واضح ہیں، مگر جب عمل کا وقت آتا ہے تو ہمارا اعتماد متزلزل ہو جاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ عزت، رزق اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہیں، مگر دل اس یقین پر ٹھہر نہیں پاتا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے ایمان کو محض زبانی اقرار سے نکال کر عملی یقین میں بدلیں۔ جب انسان یہ سمجھ لیتا ہے کہ نہ عزت انسان دیتا ہے، نہ رزق اور نہ ہی موت، تو اس کے اندر ایک حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ ایسا انسان حق کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، خوف سے آزاد ہو جاتا ہے اور کسی دباؤ میں نہیں آتا۔ اللہ پر مضبوط یقین یعنی توکل ہی فرد کی نجات ہے اور یہی معاشرتی اصلاح کی بنیاد بھی۔ اگر ہم واقعی ایک باوقار، منصفانہ اور مضبوط معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں ان تین خوفوں سے آزادی حاصل کرنا ہوگی۔ یہی آزادی اصل کامیابی ہے۔
واپس کریں