دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
صدارتی نظام۔ایک اور تجربے کی بازگشت
No image روزنامہ جنگ، جیو نیوز اور یو ٹیوب چینل ٹاک شاک کے ممتاز صحافی اعزاز سید کے مطابق ملک میں صدارتی نظام لانے کے لیئے کام شروع کر دیا گیا ہے،ان کے بقول انہوں نے وہ دستاویزات پڑھی ہیں جن میں صدارتی نظام کے خدوخال سے متعلق تفصیلات درج ہیں۔یاد رہے اعزاز سید نے چند روز قبل یہ خبر بریک کی تھی جس کے بعد حکومت کی جانب سے اس حوالے سے تردید جاری کی گئی لیکن مذکورہ صحافی اپنی خبر پر پوری طرح قائم ہیں۔دھواں بھی وہیں سے اٹھتا ہے جہاں کوئلے سلگ رہے ہوں۔
امر واقع یہ ہے کہ مل پاکستان میں صدارتی نظام پہلی بار 1956 کے آئین کے تحت متعارف ہوا، جو 23 مارچ 1956 کو نافذ ہوا۔ اس آئین کے تحت جنرل اسکندر مرزا پاکستان کے پہلے صدر بنے۔ تاہم، یہ نظام زیادہ دیرپا نہ رہا اور 1958 میں مارشل لاء کے نفاذ کے ساتھ ختم ہو گیابعد میں، صدارتی نظام دوبارہ 1962 کے آئین کے تحت جنرل ایوب خان کی صدارت میں بحال ہوا، جو 1962 سے 1969 تک جاری رہا۔ اس دوران صدر کو وسیع اختیارات حاصل تھے۔اس کے علاوہ، 1973 کے آئین میں پارلیمانی نظام رائج کیا گیا، لیکن 1985 میں جنرل ضیاء الحق نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے صدر کے اختیارات کو بڑھا کر جزوی صدارتی نظام دوبارہ متعارف کرایا، جو 1997 تک مؤثر رہا جب تک کہ تیرہویں ترمیم نے صدر کے اختیارات کو کم کر دیا۔ مختصر کہ پاکستان میں، صدارتی نظام کے اہم ادوار 1956، 1962-1969، اور 1985-1997 ہیں۔گویا راولپنڈی کے لیبارٹری میں صدارتی نظام کا تجربہ پہلے بھی ایک سے زیادہ مرتبہ کیا جا چکا ہے۔جس کا نتیجہ ناکامی اور بدنامی کی صورت میں پوری قوم نے دیکھا۔
اس ساری حقیقت کے باوجود اگر پھر ایک سرے سے ملک میں صدارتی نظام کو لانے یا نافذ کرنے کا تجربہ کرنے کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں تو ماضی کے نتائج کی روشنی میں یہی اخذ جا سکتا ہے کہ اس مرتبہ بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔
ہم نے چونکہ محض لہو کو گرم رکھنے اور کچھ نہ سیکھنے کی قسم اٹھائی ہوئی ہے اس لیئے بار بار کے ایسے تجربات ہمیں آگے لے جانے کے بجائے پیچھے کی جانب دھکیلتے ہیں۔ بانی پاکستان نے واضع طور پر کہا تھا کہ اس ملک کا روشن مستقبل پارلیمانی نظام حکومت میں ہی پنہاں ہے۔ اصل جنگ اور جستجو”مکمل اختیارات“ کے حصول کی ہے اور اسی باعث ہمیں ہماری منزل ہی دکھائی نہیں دے رہی۔
واپس کریں