
احتشام الحق شامی:محترم جناب شہباز شریف کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کی شہرت و مقبولیت کم ہونے کے الزامات یا تحفظات مختلف زاویوں سے سامنے آتے ہیں، خاص طور پر ان کے سیاسی فیصلوں، معاشی پالیسیوں اور مسلم لیگ ن کی اندرونی ڈائنامکس کے تناظر میں۔
شہباز شریف کی 2022-2023 کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران، پاکستان کو شدید معاشی بحران کا سامنا تھا، جس میں مہنگائی، پیٹرولیم مصنوعات، بجلی، اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ شامل تھا۔ شہباز شریف کی مخلوط حکومت کی پالیسیوں نے عوام میں مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کو براہ راست نقصان پہنچایا کیونکہ عام شہریوں کو فوری ریلیف کی امید تھی جو پوری نہ ہوئی۔
2022 میں عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے بعد مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت بنانے کا فیصلہ بڑی سیاسی غلطی ثابت ہوا۔نواز شریف کے نعرے”ووٹ کو عزت دو“ کو بائی پاس کرتے ہوئے بلکہ ”سیاست نہیں ریاست بچائیں گے“کا نعرہ بلند کیا گیا،جس کے نتیجے میں کڑے،غیر سیاسی،غیر عوامی اور غیر مقبول فیصلے کیئے گئے۔ان فیصلوں سے ن لیگ کو اس وقت اور پھر بعد میں حکومت میں آ کر مشکل معاشی حالات اور سیاسی عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑا، جو مسلم لیگ ن کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا اور اب بھی ہو رہا ہے۔
یاد رہے عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے کی نواز شریف نے سخت مخالفت کی تھی اور بار بار کہا تھا کہ عمران خان کی حکومت کو اس کے اپنے وزن سے گرنے دیں،وگرنہ وہ سیاسی شہید کہلائے گا اور وہی ہوا۔ عمران خان کچھ نہ کر کے بھی سیاسی شہید بنے ہوئے ہیں۔ ہمیں یاد ہے عمران خان کے اقتدار کے آخری دنوں میں پی ٹی آئی کے درجنوں ایم این اے اور اپم پی ایز مسلم لیگ میں شمولیت کے لیئے پر تول رہے تھے۔ عمران خان کی حکومت مکمل طور پر مکمل طور پر غیر مقبول ہو چکی تھی اورون پیج کے پرخچے اڑ چکے تھے جس کی گواہی سیاسی تجزیہ کار،سیاست پر نظر رکھنے والے دانشور، قومی اور غیر ملکی ادارے اور خود پی ٹی آئی کے سینئر عہدیدار بھی دے رہے تھے۔نواز شریف کی بات نہ ماننے کا نتیجہ یہ نکلا کہ 8 فروری کے الیکشن میں انتخابی نشان کے بغیر عمران خان کی پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ سیٹیں لینے والی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔
پاکستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر اگر آج عام انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے تو پی ٹی آئی دو تہائی اکثریت سے قومی اسمبلی کی سیٹیں جیت جائے گی۔یہی کڑوی حقیقت ہے،کوئی مانے یہ نہ مانے۔
شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کو اندرونی اختلافات کا سامنا رہا اور اب بھی ہے۔ پہلے مریم نواز شریف کی بطور چیف آرگنائزر تعیناتی اور دیگر سینئر رہنماؤں جیسے شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کے ساتھ تنازعات نے پارٹی کی ساکھ کو متاثر کیا اور اب پرانے اور نواز شریف کے ہم خیال ن لیگی راہنماء اور ووٹرز اپنی حکومت کی معاشی اور پرو اشٹبلشمنٹ پالیسیوں پر کھلی تنقید کرتے ہوئے اسے پارٹی کا ناقابل تلافی نقصان قرار دے رہے ہیں۔
اس بات میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قریبی اور پرانے تعلقات رکھتے ہیں، لیکن ان تعلقات کو عوامی اور سیاسی حلقوں میں این آر او اور ڈیل قرار دیا جاتا ہے اور اسی باعث مسلم لیگ ن کی عوامی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
شہباز شریف کی قیادت کے دوران مسلم لیگ (ن) کو معاشی، سیاسی، اور اندرونی چیلنجز کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگرچہ انہوں نے مشکل حالات میں حکومت چلائی اور چند کامیابیاں بھی حاصل کیں اور”کچھ حلقوں“ میں ان کی قیادت کو سراہا گیا ہے لیکن ان کامیابیوں کا فائدہ براہ راست اشٹبلشمنٹ کو پہنچا ہے جبکہ اور ان کامیابیوں نے مسلم لیگ ن کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔آخر میں پوچھنا ہے کہ کیا محترم شہباز شریف صاحب اب بھی سیاست کے بجائے ریاست کو بچانے کی پالیسی پر گامزن ہیں؟
واپس کریں