مظہرعباس
کسی بھی مذاکرات سے پہلے ہمیشہ ایک ماحول بنایا جاتا ہے خاص طور پر اگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی اپنی انتہا کو چھورہی ہو۔ موجودہ صورت حال بھی کچھ ایسی ہی نظر آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ماحول کیسے بنایا جائے۔ 1977ء کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ اُس وقت کا نو جماعتی اتحاد جو زبان سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے لئے استعمال کرتا تھا وہ نا قابل بیان بھی ہے اور اشاعت بھی ،اسی طرح بھٹو صاحب بھی کوئی کسرنہیں چھوڑتے تھے۔ مذاکرات جب شروع ہوئے تو بہت خون بہہ چکا تھا۔ دونوں طرف کے وفود نے طے کیا کہ جب تک بات چیت نتیجہ خیز نہیں ہوتی مذاکرات جاری رہیں گے۔ یہ بھی طے ہوا کہ پی این اے کوئی ہڑتال یا احتجاج کی کال نہیں دے گی جب تک بات چیت چل رہی ہے۔
دونوں طرف سیاسی شعور اور وقت کی نزاکت کو سمجھنے والے اکابرین موجود تھے کچھ سازشی عناصر بھی تھے ۔ پھر بھی بات چیت ہوئی دونوں جانب سے لچک دکھائی گئی اور حقیقت تو یہ ہے کہ مذاکرات کامیاب ہوگئے تھے اور یہ بات مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسر غفور اور خود نواب زادہ نصر اللہ خان نے ذاتی طور پر کئی بار مجھ سے گفتگو میں بتائی مسئلے کا حل سیاستداں ہی نکال سکتا ہے اور نکالتا ہے۔
اپریل 2022ء کے بعد جو بھی صورتحال پیدا ہوئی اور تین سالوں میں جو کچھ بھی ہوا آج معاملے سے کیسے نکلا جاسکتا ہے اصل سوال یہ ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے تین سالوں میں کئی کوششیں کیں بات 9؍مئی کی ہوئی،26نومبر کی یا تحریک انصاف کے بانی سمیت ان کے سرکردہ رہنماؤں کی گرفتاری کی کیا یہ رہائی، حکومت کی تبدیلی یاکوئی ’بڑا معرکہ‘ حکومت کودوبارہ الیکشن پر مجبور کرسکتا ہے خاص طور پر ایسے ماحول میں جب بادی النظر میں مقتدرہ کی حمایت بھی ان کو حاصل ہو۔ حکومت کو گھر بھیجنے یا نئے الیکشن تک لیجانے کے دو ہی راستے ہیں نمبر ا:مذاکرات اور سنجیدہ مذاکرات، دوئم ، لاکھوں افراد اسلام آباد پہنچ جائیں تو وہ حکومت کیوں کرنے دے گی ،فائنل کال دے کر آپ نے دیکھ لیا۔ میرے نزدیک اور ناقص رائے میں مسئلےکا حل نئے الیکشن ہیں اوروہ اسلئے بھی کہ پی ٹی آئی کہتی ہے کہ 8؍ فروری 2024ء کو اس کا مینڈیٹ چوری ہوا جبکہ مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ ہے کہ 2018ء کو ان کا مینڈیٹ چوری ہوا اگر میچ ڈرا ہے تو فائنل تیسرا میچ کروالیں۔ البتہ نئے ایمپائر یعنی الیکشن کمیشن کا فیصلہ وزیراعظم اور قائدِ حزب اختلاف کرلیں رول آف گیمز بھی طے کرلیں۔
رہ گئی بات تاریخ کی تو الیکشن اس سال کے آخر میں بھی ہوسکتے ہیں۔ اورمارچ یا اپریل ، 2026ء کو بھی ہوسکتے ہیں ۔ایک متفقہ عبوری حکومت کی نگرانی میں اگر دونوں فریق مذاکرات پر تیار ہوتے ہیں تو پاکستان تحریک کے بانی اور جیل میں ان کے دیگر قائدین کو کسی گیسٹ ہاؤس میں وقتی طور پر منتقل کیا جاسکتا ہے۔ جیساکہ 1977میں بھی دیکھنے کو ملا تھا جو عدالتی معاملات ہیں وہ عدالتوں پر چھوڑ ے جاسکتے ہیں۔ مگر دونوں طرف سے سیاسی لچک لازمی ہے اور غیر سیاسی عدم مداخلت۔ ماحول کو بہتر بنانے کے لئے میڈیا پر سے غیر علانیہ سنسر شپ کا خاتمہ اور پیکا جیسے قوانین کی معطلی بہت ضروری عمل ہے،۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مذاکرات کی بنیاد پی ٹی آئی کے ان پانچ رہنماؤں کے خط کو بنایاجائے یا پھر مذاکرات وہیں سے شروع ہوں جہاں ختم ہوئے تھے۔ ہماری آج کی سیاست میں کوئی نواب زادہ ، پروفیسر غفور یا میرغوث بخش بزنجو تو نہیں مگر پھر بھی خواجہ سعد رفیق ، رانا ثناءاللہ ، شاہ محمود قریشی، قمر زمان کائرہ یا نوید قمر ، شبلی فراز، عمر ایوب جیسے لوگ موجود ہیں جو اپنی اپنی سطح پر بہرحال ایک ابتدا تو کرہی سکتے ہیں۔
مذاکرات کی کامیابی ہمیں ایک اصل جمہوریت کی جانب لے جاسکتی ہے۔ یہ کہنا کہ مذاکرات صرف مقتدرہ سے ہونگے دراصل ہائبرڈ نظام کو مضبوطی کی طرف لے جانے والی بات ہے۔ اگر حکومت کے بس میںکچھ نہیں تب بھی بات حکومت سے ہی کریں۔اگر وہ بے بس نظر آئیں اور بات آگے نہ بڑھ سکےتو میدان تو ہر وقت ہی تیار رہتا ہے۔ نہ تحریک کہیں جارہی ہے اور نہ ہی کارکن اور لیڈر۔ جو لوگ خان پر تنقید کررہے ہیں کہ وہ صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتا ہے تو اُنہیں بھی اس بات کا جواب بہر حال دینا ہوگا کہ 8؍فروری کا مینڈیٹ کس کا ہے۔ میں نے تو بہت پہلے یہ تجویز دی تھی کہ صرف لاہور میں جو مسلم لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے دوبارہ الیکشن کردیں۔ جو جیت جائے وہی سکندر ۔
عمران کی سیاسی غلطیوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ جس میں سرِفہرست پنجاب اور کے پی حکومتوں کا خاتمہ مگر ان غلطیوں کے باوجود وہ آج تک پاکستان کا سب سے مقبول لیڈر ہے اور پی ٹی آئی سب سے بڑی جماعت ۔ مگر کوئی آج مقبول ہے تو ضروری نہیں کل بھی یہی صورتحال رہے گی۔ یقین نہ آئے تو 2020 اور2021ء کے ضمنی الیکشن دیکھ لیں پھر آخر مسلم لیگ (ن) کو خوف کس چیز کا ہے۔ دیکھیں ہماری سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ لانے والے کو بھی پتا ہوتا ہے کہ حقیقت کیاہے اور جانےوالے کو بھی کہ زمینی حقائق کیا ہیں۔ سابق وزیر اعظم نوازشریف اس وقت سب سے زیادہ تجربہ کار سیاستدان ہیں ۔ وہ آگے بڑھیں چاہےبڑی سے بڑی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ عمران سے اگر ملنے میں کوئی عار ہے تو وہ از خود بھی بڑا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ ایک آخری بات خود پی ٹی آئی کو بھی سمجھنی ہوگی۔ ذوالفقار علی بھٹو 1977میں بھی سب سے مقبول ترین لیڈر تھا مگر اس کی پارٹی اسے جیل سے رہائی نہ دلواسکی ۔ سیاست لچک کا نام ہے نہ کوئی ڈیل کریں نہ کوئی این آر او مگر بات حکومت سے کریں تو بہتر ہے ورنہ تحریک تو کبھی بھی چل سکتی ہے۔
واپس کریں