دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
لوٹے اور خوش فہمی کا آخری درجہ۔ کامران طفیل
کامران طفیل
کامران طفیل
اگر چند لوٹوں کے بک جانے سے کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ خان صاحب پاکستانی عوام کا اعتماد کھو چکے تو یہ خوش فہمی کا آخری درجہ ہے یا شدید قسم کی غلط فہمی ہے ۔ (کیونکہ عمران نے خود بھی ایسے چند لوٹے خریدے تھے لیکن جب استنجا کرنے لگا تو پانی نہیں نکلا اور یوں بنا طہارت کے ہی یہ جنگ لڑی)
بلا شبہ موجودہ حکومت ایک کمزور ترین حکومت تھی۔
جسکا اس کرپٹ سسٹم نے نہ ساتھ دینا تھا نہ ساتھ دیا ۔ بلکہ ان کی اپنی صفوں میں موجود کرپٹ ٹولے نے بھی خوب بلیک میل کیا ۔(اور یہ کرپٹ اتنے طاقتور تھے کہ عمران خان کو ہپناٹائز کرکے اس سے پہلے چینی ایکسپورٹ کروائی اور پھر امپورٹ کروائی, عمران کی آنکھوں میں مرچیں ڈال دیں تاکہ وہ مہنگائی کو نہ دیکھ سکے, عمران کی ناک کے عین نیچے ایوان صدر میں مشاعروں پر کروڑوں خرچ کرواتے رہے, اپنے سیاسی مخالفین کو تنگ کرنے کے لئے نیب اور اینٹی نارکوٹکس فورس کے کروڑوں روپے ضائع کروائے)
عمران خان ان اشرفیہ کی صفوں میں ہراول دستے تک گھس جانے والا وہ واحد سیاستدان ہے جو نہ باپ کے پیسوں سے اس مقام تک پہنچا نہ خاندانی پس منظر کو لیکر، (اس نے بس ہر بندے سے پیسہ مانگا, وہ جانتا تھا کہ وہ خود اپنی اور باپ کی کمائی سے کچھ نہیں کر سکتا) بلکہ خالص عوامی حمایت لیکر یہ اپنی ایک سیٹ سے سفر کرتا ہوا 22 سال کے عرصے میں یہاں تک پہنچا ۔(اور یہ خالص عوامی حمایت اتنی زیادہ تھی کہ حمایت دلوانے والوں کو نیپیاں بدلنی پڑیں, ہر بل کی منظوری کے لئے سیکٹر کمانڈر ذلیل ہوتے رہے)
لہذا مائنس عمران کا فارمولا سامنے رکھ کر حکومت کا خواب دیکھنے والے صرف خواب دیکھ رہے ہیں جسکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ (حقیقت تو فقط اتنی ہے کہ عوام جگہ جگہ عمران اور ان کے لانے والوں پر لعنت بھیج رہے ہیں)
پہلے اس بھان متی کے کنبے کا پتہ چل جائے کہ یہ مکس اچار کس کروٹ بیٹھتا ہے، انشاء اللہ اس بار انصافینز انکے اس نیوٹرل مامے کو بھی سینگوں پر لیں گے جسکے خوف سے ان کرپٹ سیاستدانوں کی شلواریں گیلی ہوتی ہیں ۔ (جی وہی نیوٹرل ماما جس نے ساڑھے تین سال اندھے کو عینک اور لنگڑے کو بیساکھی دئیے رکھی)
انصافینز خان کے ان ابتدائی جلسوں کے الفاظ یاد رکھیں " کہ ان خوف کے بتوں کو توڑنا ہے "
اگرچہ بہت سے بت ٹوٹ چکے، عین ممکن ہے خوف کے اس سب سے بڑے بت کو توڑنا بھی خان صاحب کے نصیب میں لکھا ہو ۔ (بس یہ بت اب ٹوٹا کہ ٹوٹا سمجھیں)
لہزا آپ نے گھبرانا نہیں ہے ۔ ان کرپٹ لوگوں کی اتنی اوقات ہی نہیں یہ خان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں ۔ (یہ بس اس کی ٹانگوں میں ٹانگیں ڈال سکتے ہیں)
یہ گیدڑوں کا غول آپس میں سر جوڑ کر اسکا شکار کرنے کی سکیمیں صرف اس لیے بنا رہا ہے کہ عمران خان نے ان کے مفادات کو شدید ضرب پہنچائی ہے ۔
اب ان کے بیرونی آقا بھی انکی پشت پر ان کھڑے ہوئے ہیں ۔ (جی ان کے مفادات کو نقصان پہنچاتے پہنچاتے چینی میں چار سو ارب, آٹے میں تین سو ارب, ایل این جی بروقت نہ خریدنے میں چار سو ارب روپے کا نقصان عوام کو پہنچ گیا جو کولیٹرول ڈیمیج سمجھا جائے)
جہاں تک عمران خان کی کارکردگی کا سوال ہے تو عمران خان اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکا ہے ۔ اس نے ملک کے نوجوان طبقے کو جگا دیا ہے (اور وہ جگہ جگہ گالم گلوچ کرتے نظر آ رہے ہیں )۔ اس نے ضمیروں کو روشن کرنے والی چنگاریاں بکھیر دی ہیں ۔(جس سے اب ویٹ کریم کی سیل ڈاؤن ہوگئی ہے)اس نے نام نہاد اشرافیہ کے منہ سے نقاب نوچ پھینکے ہیں ۔ اب بیرونی ممالک میں بھی انکی اولادیں منہ چھپا کر پھرتی ہیں کہ کہیں کسی پاکستانی کی نظر نہ پڑ جائے ۔
عمران خان کی حکومت میں چپڑاسی سے لیکر اشرافیہ تک ہر وہ حرام خور ناخوش رہا جو عادی حرام خور ہے ۔ انہیں حرام خوروں کا یہ ٹولہ ہی سوٹ کرتا ہے جو آج سندھ ہاؤس میں بیٹھ کر سکیمیں بنا رہا ہے ۔ (حرام خوروں کا یہ ٹولہ سینیٹ عدم اعتماد میں عمران خان نے احتیاطی طور پر اپنے ساتھ لگایا ہوا تھا)
سعادت حسین منٹو سے کسی نے پوچھا تھا کہ سنائیں کیا حال ہے آپ کے ملک کا ؟
تو اس نے کہا بالکل ویسا ہی حال ہے جو جیل کی مسجد میں نماز جمعہ کا ہوتا ہے ۔
اذان فراڈیا دیتا ہے ، امامت قاتل کرواتا ہے اور نمازی سب کے سب چور ہوتے ہیں ۔ (یعنی اسد عمر اذان دیتا ہے, عمران خان امامت کرواتا ہے اور مراد سعید وغیرہ نمازی ہیں)
آج خان کے خلاف جمع ہونے والے بھی سارے وہی جیل کی مسجد والے وہ پارسہ ہیں ۔ (پارسہ جات دستیاب ہیں)
ان ازل کے بے ایمانوں کو ایک ایماندار انسان کے نام پر ووٹ لیکر کروڑوں روپے میں بیچنا بہت مہنگا پڑنے والا ہے ۔ ابھی تو اصل کھیل شروع ہونے والا ہے ۔(لہذا شلواریں ٹخنوں سے اونچی کر لیں)
وہ اکیلا آیا تھا اور یہ لڑائی اکیلے شروع کی تھی ۔ اب تو پاکستان کا نوجوان طبقہ سارا اسکے ساتھ ہے ۔ (لمز میں اسے اور اس کے ابے کو جن نوجوانوں نے گالیاں دیں وہ کمزوری کا شکار تھے)
یہ ان بوڑھے کھسوٹ سیاستدانوں کی آخری چالیں ہیں (جو ایک الہڑ جوان ناکام بنا رہا ہے) جو اسکی راہ کھوٹی تو کر سکتی ہیں لیکن مات نہیں دے سکتیں ۔(کیونکہ اس نے شکست ماننی ہی نہیں) اب صرف موت ہی اسے مات دے سکتی ہے ۔(موت میں م پر پیش ہے)
اب دو ہی راستے بچے ہیں یا انہیں بھٹو کی طرح اسے راستے سے ہٹانے کا کچھ سوچنا پڑے گا یا ان کے نیوٹرل مامے سمیت ان سب کو راہ راست پر آنا پڑے گا ۔(یا وہ نشے کی زیادتی کی وجہ سے خود فوت ہوجائے گا)
واپس کریں