دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
یہ گورنینس کا مسئلہ نہیں بلکہ سیاسی مسئلہ ہے
کامران طفیل
کامران طفیل
مفتاح اسماعیل کے آرٹیکل کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ ہمارا اصل مسئلہ بری گورنینس ہے، مشرف کے دور میں سرکلر ڈیٹ کم تھا، زرداری میں اس سے بڑھا، نواز دور میں مزید اور ہائبریڈ حکومت میں پچیس سو ارب روپے ہوگیا۔اگر آپ اس بات کا تجزیہ کرنا چاہتے ہیں تو بنیادی طور پر یہ گورنینس کا مسئلہ نہیں بلکہ سیاسی مسئلہ ہے۔
اصولی طور پر انرجی کی لاگت میں اضافے کے بعد یہ اضافہ عوام کی طرف منتقل کر دیا جاتا تو یہ مسئلہ مشرف دور میں ہی حل ہوجانا تھا، مشرف چونکہ ایک "اللجیٹیمیٹ" حکومت کا سربراہ تھا اس لئے ہر آمر کی طرح وہ خوفزدہ تھا کہ اگر یہ اضافہ عوام کو منتقل کیا گیا تو وہ عوام جو پہلے ہی اس سے نفرت کرتی ہے وہ مزید نفرت کرے گی،اس کا دوسرا نقصان یہ ہوا کہ مشرف نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے اپنی آنکھیں بند کر لیں یعنی بجلی بنانے کی مقدار میں اضافے سے پرہیز کیا کیونکہ اس صورت میں یہ خسارہ اور ڈیٹ مزید بڑھ جاتا۔
زرداری حکومت جب اقتدار میں آئی تو نون لیگ اس کی پارٹنر تھی، یہ ایک مضبوط حکومت کے آثار تھے لیکن "چرخ کج رفتار" کو یہ منظور نہ تھا اور نواز شریف کو ہائی جیک کر لیا گیا اور فتنہ افتخار نازل ہوا، نواز شریف کے حکومت سے نکلنے کے بعد یہ حکومت کمزور ہوگئی اور بالکل ابتدا میں ہی جو تلخ فیصلے کرنے تھے وہ نہ کرسکی اور ہر وقت بحرانوں سے نمٹتی رہی۔
دنیا میں ہر حکومت مشکل فیصلے اپنے پہلے سال میں ہی کیا کرتی ہے، مودی نے جب بھارت میں نوٹ بندی کا فیصلہ کیا تو وہ جانتا تھا کہ اس سے عوام میں غم و غصہ ابھرے گا اور لوگ اسے برا بھلا کہیں گے لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ کوئی کیانی، ظہیرالاسلام، راحیل شریف، فیض، باجوہ، مشرف، ضیا،ایوب اسے پانچ سال پورے کرنے سے نہیں روکے گا اور اس عمل کے اچھے نتائج آنے اور اگلے الیکشن میں عوام کے سامنے اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کرنے تک ڈاکیومینٹیشن کی وجہ سے فسکل سپیس ملے گی اور وہ عوام کو ریلیف فراہم کرے گا، اسی لئے اس نے یہ مشکل فیصلہ کیا۔
آج بھارت کے جو بھی گروتھ ہے وہ اسی ایک فیصلے کی مرہون منت ہے، جب کارپوریٹ سیکٹر کو اندازہ ہوگیا کہ اب بھارت میں کالا پیسہ رکھنا آسان نہیں ہوگا اور ان مقابلہ نان ٹیکسڈ سیکٹر سے نہیں ہوگا تو فارن ڈائریکٹ انویسٹمینٹ کے راستے کھل گئے۔
جو لوگ عالمی منظر نامے پر نظر رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ مودی کے نوٹ بندی کے فیصلے پر کتنا غم و غصہ تھا عوام میں لیکن ووٹ کے وقت تک وہ ان کو اتنا کچھ دے چکا تھا کہ پھر جیت گیا۔
نواز حکومت کو بھی کمزور رکھا گیا اور اس گھٹیا فلم کے کردار ظہیر الاسلام، عمران خان، طاہر القادری اور راحیل شریف تھے۔
نواز شریف کو اس کی حکومت کے پہلے سال میں ہی غیر مستحکم کیا گیا۔
پھر آگیا عمران باجوہ ہائبریڈ زمانہ، یہ وہ وقت تھا کہ جب سخت فیصلے لئے جا سکتے تھے، ہر ادارہ عمران کا غلام تھا، عوام کی معتد بہ تعداد ذہنی طور پر اس سے مرعوب تھا، عسکری قیادت کو لگتا تھا کہ ان کا دیرینہ خواب پورا ہوا لیکن ایک نااہل انسان کی وجہ سے یہ موقع ضائع ہوگیا۔
پاکستان میں آنے والے کم از کم پانچ سال ہم کسی قسم کا سیاسی استحکام نہیں دیکھ رہے اور کسی ایسے فیصلے کی توقع بھی نہیں رکھ رہے جس سے کسی قسم کی مثبت تبدیلی آ سکے اور اس بار اس کی وجہ شاید اسٹیبلشمنٹ نہ بنے۔
واپس کریں