دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
موجودہ سیاسی صورتحال کے ممکنہ تین ہولناک سینیریوز
کامران طفیل
کامران طفیل
پاکستان کی سیاست لگاتار یکسانیت کا شکار ہے, پچھلے پندرہ سال سے ایک ہی کھیل بار بار کھیلا جا رہا ہے۔سیاست کا نیوکلئیس ملٹیبلیشمنٹ ہے اور عدالتیں اس کا جونئیر پارٹنر۔سیاستدان اس فلم میں ایکسٹراز ہیں اور یہی وجہ ہے کہ میں سیاستدانوں پر کم تنقید کرتا رہا ہوں۔ان کے خلاف منظم پروپیگنڈا کیا گیا اور اسی طرح ملٹیبلشمنٹ کے حق میں منظم پروپیگنڈا کیا گیا۔پاکستان کی موجودہ معاشی و سیاسی صورتحال کی ذمہ داری بھی ستر فیصد سے زائد ملٹیبلشمنٹ اور اس کے جونئیر پارٹنر جیوٹیبلشمینٹ پر عائد ہوتی ہے۔میرے خیال میں اس ساری صورتحال سے نکلنے کا شاید اب کوئی راستہ نہیں رہا اور اب ہم بند گلی میں داخل ہوچکے ہیں۔
موجودہ سیاسی صورتحال کے ممکنہ تین سینیریوز ہیں اور تینوں ہی ہولناک ہیں۔
پہلا سینیریو یہ کہ عمران خان پنجاب فتح کرکے مرکز پر حملہ آور ہو اور مرکز گر جائے,اس ساری کشمکش میں تیزی سے پگھلتی ہوئی معیشت آئس کریم کی جگہ دودھ بن جائے۔نگران حکومت آجائے اور آئی ایم ایف سے گفتگو ختم ہوجائے۔
دیوالیہ جو اس وقت پچھتر فیصد پر ہے اس ساری مہم جوئی میں سو فیصد دیوالیہ ہوجائے۔
اور اگر الیکشن کے نتیجے میں پی ڈی ایم اقتدار میں آئے تو بھی عمران ایجیٹیشن کرے یا عمران آجائے اور آئی ایم ایف عمران کو کوئی بھی ڈیل آفر کرنے سے انکار کردے کیونکہ وہ پہلے آئی ایم ایف کو دھوکا دے چکے ہیں۔
سینیریو نمبر دو پنجاب اسمبلی نون کے پاس رہے اور عمران ایجیٹیشن کرے اور لگاتار سڑکوں کو گرمائے, اس ساری صورت میں بھی معیشت ہچکولے ہی کھائے گی اور سعودی عرب اور آئی ایم ایف مشکوک رہیں گے کہ اگر حکومت گر گئی تو نگران اور پوسٹ نگران حکومت معاہدے کی پاسداری کرنے سے انکار کر دے, تو بھی نتیجہ ایک سا ہی ہوگا۔

سنیریو نمبر تین سیاسی جماعتیں کسی معاہدے پر پہنچ جائیں اور دو صوبے پی ٹی آئی چلائے اور مرکز پی ڈی ایم نومبر تک چلائے, مفاہمت سے نگران حکومت بنے اور الیکشن ہوں لیکن اس دوران یہ معاہدہ پبلک ہوجائے اور آئی ایم ایف سعودی عرب ڈیل دے دیں, اس صورت میں ڈیفالٹ ایک سال کے لئے ڈیفر ہوجائے گا لیکن بظاہر عمران خان کی افتاد طبع اس سینیریو کے لئے تیار نہیں ہوگی ورنہ وہ مرکز میں اپنے خلاف عدم اعتماد کو برداشت کرکے اسمبلی میں رہتے اور جس مینڈیٹ کی وہ اس وقت پنجاب اسمبلی میں دُہائی دے رہے ہیں وہ مرکز میں پی ڈی ایم کا مینڈیٹ مان لیتے, ان کا ٹریک ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ وہ اپنے لئے جائز ہر چیز کو دوسروں کے لئے ناجائز سمجھتے ہیں اور پاکستان کی موجودہ صورتحال کی نوے فیصد ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے۔

عمران خان نے کل ق لیگ لیڈ پی ٹی آئی کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے نیوٹرلز سے بار بار کہا کہ وہ سازش کو ناکام بنائیں ورنہ معیشت تباہ ہوجائے گی۔
ویسے تو عمران خان اتنی انٹلیکچول کیپیسیٹی کے حامل نہیں کہ وہ اس سوال کا جواب دے سکیں کہ وہ کس قسم کا سیاسی نظام چاہتے ہیں۔
وہ حق ہیں باقی سب باطل ہیں۔
باطل کی سرکوبی میں فوج ان کا سیاسی اور عسکری پارٹنر بنے۔
انہیں پاکستان کی واحد سیاسی قوت بنا دیا جائے اور فوج ان کی مدد کرے۔
پھر یہ طے کرنا بھی ضروری ہوگا کہ فوج کو وہ بدلے میں کیا دیں گے اور کہاں سے دیں گے? کیونکہ بجٹ میں مخصوص گیارہ سو ارب کی بجائے دو ہزار ارب دینے سے بجٹ خسارہ پانچ ہزار ارب تک پہنچنے میں مدد ملی اور ان کو سفارتیں وغیرہ بھی دے چکے لیکن فوج نے پھر بھی آخری دو مہینے میں ان کی مدد نہیں کی۔
بہتر ہوگا کہ وہ کسی آزاد صحافی کو انٹرویو دیں اور وہ سیاسی نظام واضح کریں جس میں فوج ان کو واحد نجات دہندہ کے طور پر ہی پروٹیکٹ کرے اور فوج کے معاشی مفادات بھی ایک بار فکس کردیںوہ واضح کریں کہ وہ کون کون سی وزارتیں بند کر کے فوج کے حوالے کریں گے اور اس کا خرچ کٹ کرکے فوج کو دیں گے۔
وہ یہ بھی واضح کریں کہ جونئیر ہارٹنر عدلیہ جو پچاس پچاس لاکھ کے پرکس اینڈ سیلری پر موجود ہیں ان کو کیا مزید عنایت فرمائیں گے تاکہ عدالتیں رات کو نہ کھلیں۔
میں نے ایک عرصی پچاس سے زیادہ پی ٹی آئی ایکٹیویسٹس کو فرینڈ لسٹ میں رکھا لیکن کسی ایک کی وال پر سنجیدہ گفتگو نہیں دیکھی کہ وہ کیسا سیاسی نظام دیکھنا چاہتے ہیں البتی گالیاں, فیک خبریں اور بد دعائیں بہت دیکھی ہیں۔
کیا اس ضمن میں میری کوئی مدد کر سکتا ہے?
واپس کریں