دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان کی سیاست دائروں کا ایک سفر ہے۔
کامران طفیل
کامران طفیل
پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ہر اس بندے سے جنگ لڑتی رہی ہے جو عوام میں مقبول تھا۔بھٹوز،نواز شریف اور اب عمران خان۔بھٹو اسٹیبلشمنٹ سے کتنا خوفزدہ تھا اس کا تذکرہ کئی لوگ اپنی کتابوں میں کرچکے ہیں اور اکہتر میں ایک المناک شکست اور پھر نوے ہزار قیدیوں کی بازیافت کے باوجود ایک لمحہ بھی نہیں آیا کہ سیاست بوٹوں تلے دب جانے کے خوف سے نبرد آزما نہ رہی ہو۔نوبت بھٹو کو قتل کرنے تک جاپہنچی اور یہی کچھ ان کی بیٹی کے ساتھ بھی ہوا۔
نواز شریف کو تو نصرت جاوید بہادر شاہ ظفر کا خطاب دے ہی چکے ہیں لیکن وہ وزیراعظم ہاؤس میں تھے اور انہیں ہانکا لگایا جا رہا تھا اور پھر سر مقتل پہنچا دیا گیا۔
عمران کے ساڑھے تین سال ایک قسم کا مارشل لا ہی تھا،لوگ شاہد بھول چکے ہوں لیکن آج انہیں جو کچھ غلط نظر آ رہا ہے وہ عمران دور میں ہی شروع ہوا تھا۔
ٹی وی چینل بند کرنا۔
جمیل فاروقی کی طرح محسن بیگ کی گرفتاری اور ان پر تشدد۔
اپنے سیاسی مخالفین پر ہیروئین کے کیس داغنا۔
اپنے سیاسی مخالفین پر اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام پر بیس بیس مہینے ان کو جیل میں رکھنا۔
طیبہ فاروق کو یرغمال بنانا ۔
پنجاب یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کو ذلیل کرنے کے لئے ان کے غسل خانے میں ویڈیو کیمراز لگانا بہت پرانی بات نہیں ہے۔
یہ ماننے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ عمران خان نواز شریف یا بھٹو کی طرح مصلحت کا اسیر نہیں رہا اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ پبلک سینٹی مینٹ اب اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔
اپنی تمام تر برائیوں کے باوجود اس وقت عمران خان ملک کا مقبول ترین لیڈر ہے اور یہ لڑائی ایک بار پھر عوام اور خاکی خواص کے درمیان ہے۔
حربے سب وہی پرانے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ نے بھٹوز اور نواز کے خلاف استعمال کئے لیکن مقابل ویسا نہیں ہے۔
عرصہ آٹھ سال سے فیس بک پر لکھ رہا ہوں کہ پاکستان میں سیاسی استحکام کا کوئی امکان نہیں اور اس کی وجہ سیاست کے کھیل میں اسٹیبلشمنٹ کی شرکت ہے۔
پاکستان کا تاریک مستقبل اب تاریک ترین ہے،اپنے بچوں کو اس ملک سے نکالیں،اپنے اثاثے بیچیں اور بچوں پر انویسٹ کریں۔
اس کھیل میں عمران یا اسٹیبلشمنٹ میں سے جو بھی جیتا پاکستان کے عوام کی شکست ہی ہونی ہے۔
واپس کریں