دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اس وقت طویل المدت نہیں شارٹ ٹرم پلاننگ ممکن ہے۔
کامران طفیل
کامران طفیل
ایک ایسے وقت میں حکومت سنبھالنا جب ڈیفالٹ بس ہوا بھر کےفاصلے پر ہو بہت ہی دلیری کا کام ہے۔
یہ ایسا ہی ہے کہ آپ ایک ایسے مریض کو ایڈمٹ کر لیں جو وینٹی لیٹر پر ہو۔
بیس بلین یو ایس ڈالر کے قرض اور پندرہ بلین ڈالر کا ممکنہ ٹریڈ ڈیفیسٹ اور ریمیٹینس کا ڈفرنس۔
اٹس آ ہیل آف اماؤنٹ
اندرونی محاذ پر چونسٹھ سو ارب کا بجٹ خسارہ۔
انفلیشن سترہ اعشاریہ پچپن فیصد اور عمران خان کی تباہ کن پیٹرولیم پرائس پالیسی, آپ یوں سمجھ لیں کہ کینسر کی چوتھی سٹیج (نوٹ شوکت خانم ہسپتال کینسر سٹیج تھری اور ٹو کو بھی ایڈمٹ نہیں کرتا کہ ان پر ریسورسز لگانا بے کار سمجھا جاتا ہے)
ایک عملی انسان کے طور پر میں تو ایسا کوئی بھی چیلنج قبول کرنا نہیں چاہوں گا جو اتنا مشکل ہو۔
سیاسی طور پر جھوٹ کے طومار اور مدمقابل سیاسی قوت احمق اور زخم خوردہ اور اس کا ہر حملہ زیر ناف۔
واٹ آ سچویشن۔
لیکن اہم سوال کہ اگر یہ نہیں کریں گے تو کون کرے گا?
میرے نزدیک اس وقت طویل المدت پلاننگ کے تو کوئی امکان نہیں ہیں اور شارٹ ٹرم پلاننگ ہی ہو سکتی ہے۔
پہلا مسئلہ پینتیس ملین ڈالر کا انتظام ہر لحاظ سے ناممکن ہے لہذا بیس بلین ڈالر کو ری شیڈول کروانا ٹارگٹ نمبر ایک ہوگا اسی لئے شہباز شریف سعودی عرب اور چائنا کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ادھر نواز شریف پاسپورٹ تجدید کے بعد آخری عشرہ اپنے سعودی دوستوں کے ساتھ گذار کر قطر اور وہاں سے اقامہ والے ملک جانے کا اذن رکھتے ہیں۔شہباز اس دوران سعودیہ میں انہیں جوائن کریں گے۔
دوسری طرف بلاول کو امریکا کے دورے پر بھیج کر معاشی دباؤ کو کم کرنے کی کوشش کرنی ہوگی کیونکہ زرداری خاندان کے بائڈن سے ذاتی تعلقات ہیں۔
اگر تو حکومت چھ بلین ڈالر لے آتی ہے تو اس سے ڈالر ایک سو بہتر کو چھو سکتا ہے اور دوسری طرف انفلیشن سترہ اعشاریہ پچپن سے بارہ فیصد تک آ سکتی ہے۔
بجٹ خسارہ کم کرنے کے لئے آئی ایم ایف سے ری نگوشی ایٹ کرنا ہوگا کیونکہ اگر قرض کمرشل بینکس سے لیتے رہنا ہے تو سروائیول ناممکن ہے۔
آئی ایم ایف پر سیاسی دباوُ صرف بذریعہ امریکا ہی پڑ سکتا ہے اور اسی دباؤ میں کچھ رعایتیں لی جاسکتی ہیں۔
ایک بات بہرحال طے ہے کہ ڈے ٹو ڈے بزنس کے طور پر اکانومی کو چلانا کوئی پائدار اور مستقل حل نہیں ہے, اکانومی کو کم از کم دس سال کا پلان درکار ہے, جس میں سب کچھ بھول کر ٹیکنیکل ایجوکیشن کو اپنا واحد ریسکیو سمجھنا ہوگا, ٹئیر ٹو یعنی الیکٹریشن, پینٹرز, مکینک, اے سی مکینک, نرسز, آئی ٹی پروفیشنلز, کوانٹیٹی سروئیرز تیار کرنے ہوں گے, ان میں سے اکثر پیشوں کے لوگ پہلے سے موجود ہیں لیکن وہ انگریزی ٹیسٹ پاس نہیں کرسکتے, گویا کام دو سطحوں پر کرنا ہوگا۔
یہ بہت مشکل ٹاسک ہے اور وہ بھی اس وقت جب سیاسی محاذ پر ایک احمق معیشت کو نقصان پہنچانے والا ہر عمل کرنا چاہے گا اور محاذ کو گرم رکھے گا
میری تمام نیک خواہشات اس نئی حکومت کے ساتھ ہیں جو باصلاحیت تو ہے لیکن وقت بہت کم ہے۔
واپس کریں