دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عمران خان کے دعوے اور عمل در آمد
کامران طفیل
کامران طفیل
دلچسپ بات یہ ہے کہ شادی سے پہلے (اقتدار میں آنے سے پہلے) کے عمران خان کے دعوؤں اور پھر ان پر عملدرامد کا جائزہ لیں تو ایسا لگتا ہے کہ ان دعوؤں کا مقصد شاید سہاگ رات منانا تھا یا دولہے کے طور پر وی آئی پی بننا۔
ایک ایک کرکے ذرا دعوے دیکھیں اور ان پر عملدرآمد
1.کرپشن ختم کروں گا۔
کرپشن پرسیپشن انڈیکس پر پست ترین سطح پر ہماری موجودگی ان کے اس دعویٰ کے رد کا تحریری ثبوت ہے, ایک کاروباری شخص ہونے کے ناطے میں یہ بات علی الاعلان کہہ سکتا ہوں کہ کرپشن دوگنی ہوگئی۔
2.احتساب کروں گا اور لٹیروں سے وصولی کروں گا۔
احتساب کرنے کے لئے موصوف نے اپنے سیاسی مخالفین کو نیب کے ہاتھوں گرفتار کروایا اور اکثریت کے خلاف مقررہ مدت سے دوگنی مدت میں بھی ریفرینس پیش نہ کروا سکے, اور ایک روپے کی بھی ریکوری اپنے سیاسی مخالفین سے کروانے میں ناکام رہے, رانا ثنا اللہ پر تو منشیات کا کیس ڈال دیا اور تاحال اس کا ایک بھی ثبوت عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔
3.اداروں کو مضبوط کروں گا۔
عدلیہ میں پھوٹ ڈلوانے کے لئے قاضی فائز عیسیٰ پر ایک ٹاؤٹ کے ذریعے ریفرنس دائر کروایا, ایک اور ٹاؤٹ کے ذریعے سابقہ تمام ریفرنسز کو سرپاس کرکے اسے سنا گیا, ایسٹ ریکیوری یونٹ جیسے غیر قانونی ادارے کو استعمال کیا گیا اور پھر مونہہ کی کھائی, عدالت میں آؤٹ آف ٹرن اپنے جج بھرتی کئے گئے, فارن فنڈنگ کیس میں بار بار عدلیہ سے التوا لیا گیا۔عدالتوں میں گروپنگ کروائی گئی,اپنی مرضی کے بینچ تشکیل دئیے گئے۔
فوج کے ادارے کو ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کیا, آئی جی سندھ کو اغوا کروا کے ایک سیکٹر کمانڈر کے ہاتھوں ذلیل کروایا گیا, اتنی ذلت اس سے پہلے اس ادارے کو کسی کے ہاتھوں نہیں ملی۔
ایف آئی اے ,نیب اور آئی بی میں مسلسل سیاسی مداخلت کی اور انہیں بدنام کروایا۔
صحافت میں بے شمار صحافیوں کو ان کی نوکریوں سے نکلوایا, میر شکیل سے ذاتی انتقام لیا گیا, مطیع اللہ جان اور اسد طور کو زدو کوب کروایا۔
4۔معیشت کو مضبوط بناؤں گا۔
پاکستان کی فی کس آمدن دو ہزار اٹھارہ میں چودہ سو بیاسی ڈالر فی کس تھی اور دو ہزار اکیس میں گیارہ سو نوے ڈالر فی کس ہوگئی۔
پاکستان کی جی ڈی پی دو ہزار اٹھارہ میں تین سو چودہ ارب ڈالر جبکہ دو ہزار اکیس میں دو اسی ارب ڈالر ہوگئی۔
پاکستان میں دو ہزار سترہ میں افراط زر کی شرح چار اعشاریہ نو, اٹھارہ میں پانچ اعشاریہ نو اور دو ہزار اکیس میں دس اعشاریہ سات فیصد رہی۔
کوئی بات رہ گئی ہو تو پوچھ لیں۔
واپس کریں