دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ریاست جموں کشمیر اور نظریاتی تقسیم
خلیق الرحمن سیفی ایڈووکیٹ
خلیق الرحمن سیفی ایڈووکیٹ
ریاست جموں کشمیر سے مراد بھارتی مقبوضہ جموں، کشمیر، لداخ، آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان پر مشتمل تمام علاقہ جات ہیں۔
اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے کمیشن برائے انڈیا و پاکستان کی دوسری قراردار جو کہ 5 جنوری 1949 میں منظور ہوئی، اس قرارداد کے تحت پاکستان اور انڈیا نے یہ تسلیم کیا ہے کہ "استصوابِ رائے کے تحت باشندگان ریاست یا تو انڈیا کا حصہ بن سکتے ہیں یا پاکستان کا"۔ اب یہ بات دونوں ممالک کے نمائندوں نے تسلیم کی۔ جبکہ سوائے مقبوضہ جموں کشمیر کی حکومتی جماعتوں اور قیادت کے کوئی بھی الحاق ہندوستان کا حامی نہیں۔
اب دو بڑے نظریات کے حامل لوگ آزاد جموں کشمیر میں موجود ہیں۔ ایک کا نعرہ اور نظریہ ہے "کشمیر بنے گا خودمختار" اور دوسرا نعرہ ہے "کشمیر بنے گا پاکستان"۔ میرا ذاتی نکتہ نظر یہہ ہے کہ دونوں نعرے دراصل مسئلہ جموں کشمیر کے حل سے قبل ہی عوام کو تقسیم کرنے کا موجب بنے۔ حقِ خودارادیت اور استصوابِ رائے کیلئے آواز اٹھانے کی بجائے قبل از وقت نعروں نے قوم کو تقسیم کیا۔
بہرحال دونوں نظریات کے حامل افراد کو ایک دوسرے کے نظریے کا احترام کرنا چاہیے۔ اور ایک دوسرے کو ایجنٹ، آلہ کار قرار دینے کے بجائے اپنے اپنے نظریات کو ٹھوس دلائل کی بنیاد پر عوام میں پھیلانا چاہیے۔
اتنا ذہن نشین رکھنا ہو گا کہ دونوں نظریات والے اسی ایک ریاست جموں کشمیر کے باشندے ہیں، دونوں کا ریاست پر ایک جیسا حق ہے اور دونوں اپنے اپنے نظریات کی ترویج کرنے کا بہرحال برابر حق رکھتے ہیں۔ اس لیے ہوش کے ناخن لیں اور ایک دوسرے کی رائے کو برداشت کرنے کی کوشش کریں۔
یہ بھی ذہن نشین رکھنا ہو گا کہ ریاست جموں کشمیر کے تمام حصےمتنازعہ ہیں اور ان تمام اطراف کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ اس لیے زبردستی اسے کسی بھی ملک کا حصہ قرار دینے سے بھی مکمل گریز کیا جانا چاہیے۔ ہر اس اقدام سے گریز لازم ہے کہ جو افراط و تفریط، لڑائی جھگڑے اور تنازعات کا موجب بنے۔
واپس کریں