خلیق الرحمن سیفی ایڈووکیٹ
مذہبی، لبرل، سیکولر اور ملحد کے درمیان فرق۔ہمارے ہاں مغالطے کا اتنا سخت عمل دخل ہے کہ ہم کسی بھی معاملے کو پرکھنے اور اس کی روح کو سمجھنے کی کوشش بالکل بھی نہیں کرتے۔ جو سنی اسی کو آگے سنا، پھیلا اور گھوما دیا۔ بس. اپنا کام پورا ہو گیا۔ ہمیں کسی بھی لفظ یا محاورے کے استعمال سے قبل اس کی لغت سے بہرحال آگاہی حاصل کر لینی چاہیے۔ کہ اس لفظ یا محاورے کی اصل معانی کیا ہیں اور اس کے مجازی معانی کیا کیا ہو سکتے ہیں۔ اور کسی بھی زبان کے محاورے اور الفاظ کی تہہ کو کھوجنا ایک فن (یعنی ایک فیلڈ/فیکلٹی/مہارت وغیرہ) ہے۔
ہمارے ہاں کچھ ایسی ہی غلط فہمیاں ہیں۔ اور اس کے ازالہ کیلئے کسی نے عوامی سطح پر کوشش کرنا بھی مناسب نہیں سمجھی۔ جس کی وجہ کی غلط العام معاشرے میں گردش کرتے کرتے پختہ ہو گیا۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ مذہبی، غیر مذہبی، آزاد فطرت اور ملحد و دہریت پسند لوگوں کی قبیل کا مختصر احوال بیان کیا جائے اور اس قبیل سے گزارش کی جائے کہ اپنے آپ کو کسی ایک مقام پر کھڑا کر کے اپنی سرگرمیوں کا عام کرے تاکہ پہچان میں مشکل نہ ہو۔
ہمارے معاشرے کی اکثریت مسلمانوں کے گھر پیدا ہونے کی وجہ سے مسلمان کہلاتے ہیں اسلام کو اپنا دین سمجھ کر مسلمان کہلانے والوں کی تعداد شاید بہت ہی کم ہو۔ اس وجہ سے جس کو جو اور جہاں سے ملا وہی اسی جانب دوڑا اور فکری و شعوری طور پر منتشر خیالوں کا حامل شخص بن کر اپنی اور معاشرے کے عدمِ توازن کا باعث بن گیا۔ جو کہ انتہائی خطرناک عمل اور امر ہے۔
1- مذہب پسند (Religious)
مذہبی پسند وہ طبقہ ہے کہ جو دین اور دینی تعلیمات پر یقین رکھتا ہے ان میں مسلمان، عیسائی، یہودی، ہندو، سکھ وغیرہ شامل ہے۔ یہ لوگ چاہے آپ دین کے ماہر، عالم، مبلغ ہوں یا پیروکار سب ہی مذہب پسند گردانے جاتے ہیں۔ ہر ایک اپنے اپنے مذہب کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارتا ہے یا گزارنے کو پسند کرتا ہے۔ ان میں اللہ کے فرمان کے مطابق اسلام سب سے پسندیدہ دین ہے۔ اور ہمارے معاشرے کی اکثریت اسلام سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور آزاد جموں کشمیر میں بالخصوص تقریبا 100 فیصد مسلم آبادی ہی ہے۔
2-آزاد خیال (Liberal):
انگریزی زبان کی مشہور ڈکشنری آکسفورڈ کے مطابق لبرل کی تعریف درج ذیل ہے۔
"A person who understands and respects other people’s opinions and behaviour, especially when they are different from their own"
ایسا شخص جو کہ دوسروں کی مخالف رائے اور رویوں کو سمجھے اور اس کی عزت کرے جبکہ وہ رائے اس کی اپنی رائے کے مخالف ہو۔
یعنی ایسا شخص جو اپنی رائے، علم اور عقیدے میں سخت گیر نہ ہو بلکہ بحث مباحثے کے ذریعے پرکھ کر اپنی رائے کو تبدیل کرے اور دوسرے کی رائے کو تسلیم کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ یہ رویہ ایک دینی اور مذہبی شخص کا بھی ہو سکتا ہے اسے مذہب اور دین سے الگ کرنا یا الگ سمجھنا درست نہیں ہو گا جب تک کہ وہ دین سے علیحدگی کا اعلان نہ کر دے اور دینی افکار کو مسترد کر کے ماننے سے انکار کر دیں۔ اور ایسے صورت میں آزاد خیال یعنی لبرل نہیں کہا جائے گا۔ ہمارے ہاں لبرل کا معنی بھی لادین سمجھا جاتا ہے جو کہ غلط ہے۔
3-سیکولر/ لادین (Secular)
آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق سیکولرازم یا لادینیت کی تعریف درج ذیل ہے۔
The belief that religion should not be involved in the organization of society, education, etc
یعنی وہ شخص کہ جس کا نظریہ یہ ہے کہ مذہب، مذیبی تعلیمات اور دین و مذہب کا عمل دخل ملکی، سماجی اور تعلیمی نظام میں بالکل نہیں ہونا چاہیے۔
اس نظریے کے ماننے والے دین اوردینی تعلیمات سے آزاد ہوتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ دین انسان کی ذات اور اس کی ذاتی زندگی تک محدود ہونا چاہیے اور معاشرے، نصاب تعلیم اور تعلیمی اداروں میں دین و مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔
اگر پاکستان اور آزاد جموں کشمیر کی صرف بات کی جائے تو اس طبقہ، سوچ، فکر کے حامل اپنی پہچان بطور مسلمان ہی کرواتے ہیں، جہاں دین کا خانہ ہو تو وہاں مسلمان لکھتے ہیں. لیکن ان کی سرگرمیاں، گفتگو، معاملات، بات چیت مذہبی اور دین بیزاری پر مبنی ہوتی ہے۔ یہ ایک غور طلب نکتہ ضرور ہے۔
4-دہریہ/ملحد (Atheist):
A person who believes that God or gods do not exist
ایسا شخص کہ جو خدا کے ہونے کا ہی منکر ہے۔ جو خدا/اللہ نام کی کسی بھی ہستی کے موجود ہونے کو ہی نہ مانتا ہوں۔
ایسے شخص کا کسی دین سے تعلق تو دور وہ پورے کائنات کے بنانے اور چلانے والے اللہ کو ہی تسلیم نہیں کرتا۔ اور یہ آخری درجے کی منکر مخلوق ہے۔ اس نظریے کے حامل ہمارے معاشرے میں موجود کسی فرد سے میری ملاقات نہیں ہوئی ہے۔
یہ وہ 4 مختلف طبقات ہی کہ جن کے بارے میں تفریق اور پہچان ضروری ہے۔ اور اس سے اہم بات یہ ہے کہ ایسے نطریات کے حامل ہر شخص کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی پہچان کا اعلان کرے اور اپنے مؤقف کو واضح کرے۔ وگرنہ یہ دواہرے معیار اور دوغلی پالیسی ہی کہلائے گی اور لوگ اپنی من مرضی کی تعریف کر کے آپ وہی قرار دیں گے کہ جو انہیں سمجھ آیا۔
آزاد جموں کشمیر میں خود مختار جموں کشمیر اور الحاقِ پاکستان والی دو قوتیں ہیں۔ خود مختار والوں کو نیشنلسٹ، اور سیکولر سمجھا اور مانا جانا ہے اور اس ترویج میں الحاق پاکستان کی مسلم کانفرنس اور مذہبی طبقے کا کافی عمل دخل ہے۔ کیونکہ دونوں طبقات اپنی سیاست کیلئے محض الزامات ہی لگاتے ہیں اور سیاسی میدان میں سب سے آسان الزام مذہبی/دینی بنیادوں پر ہی لگایا جاتا ہے۔ حالانکہ خودمختاری کے نطریہ کی بنیاد رکھنے والے عبدالخالق انصاری، مقبول بٹ، امان اللہ خان، ممتاز حسین راٹھور اور موجودہ محمد یاسین ملک میں سے کوئی ایک بھی دین بیزار، سیکولر یار ملحد نہیں تھا بلکہ اس قسم کا شائبہ بھی ان کی طرف نہیں کیا جا سکتا۔
موجودہ دور کی تحریک پسندوں سے بس بنیادی گزارش ہے کہ اپنے نظریہ کی ترویج کیلئے دین، اسلام اور دینی طبقہ کو محض لتاڑنے سے کچھ نہیں ہونا۔ بس ٹھوس بنیادوں پر اپنے نظریات پر کام کریں اور دینی طبقے سے گزارش ہے کہ اداروں کے آلہ کار بن کر، کسی سرکار کے مشورے پر کسی شخص جو کہ نظریاتی طور پر اپ سے مطابقت نہیں رکھتا اس پر کفر کے فتووں سے گریز کریں جب تک کہ وہ شخص اعلانیہ کفر نہ کرے۔ دونوں طبقات انتہاء پسندی کی نہج پر ہیں۔ معاملہ فہم لوگ اس انتہاءپسندی کو ختم کروانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
اور ہاں یاد رہے کہ خودمختاری ہو یا الحاق دونوں میں سے کسی ایک کو بھی کفر اسلام کی جنگ نہ بنائیں بلکہ اسے ایک نظریہ ہی سمجھیں۔ علماء سے بھی گزارش یہی ہے کہ الحاق کی حمایت ہی کو اسلام اور مسلمان نہ سمجھیے بلکہ یاد رکھیے کہ خود مختاری والے بھی اور الحاق بھارت والے بھی بہرحال مسلمان ہی ہیں۔
دین اور مذہب کے بے دریغ استعمال کو روکیے تاکہ دین بیزار لوگوں کو اسلام اور دن کی مخالفت کا موقع نہ ملے۔
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں مری بات۔
واپس کریں