خلیق الرحمن سیفی ایڈووکیٹ
شعبہ وکالت کو بادشاہوں کا پیشہ یا شعبہ کہا جاتا ہے جن کی ظاہری جھلک نئی نسل کو اپنی طرف کھینچتی ہے مگر بدقسمتی سے نوجوان وکلاء کی کثیر تعداد دل برداشتہ ہو کر میدان چھوڑ جاتے ہیں یا کسی دوسری جانب نکل جاتے ہیں اس کی آخر وجہ کیا ہے؟ وہ محسوسات جن کا ادراک مجھے ہوا اس پر گفتگو کرنا ضروری سمجھتا ہوں. شاید کہ ان مسائل کے تدارک کے لئے کوئی اقدامات کرنے کی کوشش کرے تاکہ نوجوان نسل اپنے مستقبل کو محفوظ بنا سکے. اور اگر میری محسوسات غلط ہوں تو میری اصلاح ہو جائے.
معاشرے کی روایت ہے کہ جب ایک نوجوان گریجویشن مکمل کرتا ہے تو اس کے والدین رشتہ دار (دیہی علاقوں میں جملہ گاؤں اور محلے دار) اس سوچ، فکر اور توقع میں نظر آتے ہیں کہ اب فوراً یہ نوجوان کسی عہدے پر براجمان ہو گا جس کے پاس گاڑی اور اچھے سے مکان کے ساتھ ساتھ مناسب آمدنی بھی ہو گی. اگر تو وہ نوجوان وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہے تو متعلقین اس سے یہ توقع کریں گے کہ یہ نوجوان دنوں میں نامی گرامی وکلاء کی طرح اپنا نام بھی بنائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ مالی طور پر بھی ویسا ہی مضبوط ہو گا. اور کئی نوجوان یہی سوچ لے کر اس طرف قدم رنجاں ہوتے ہیں مگر نتیجہ مکمل برعکس نظر آتا ہے.
ہمارے نظام میں ناہمواریاں بہت ہیں وکیل کا بیٹا یا ایک مالی طور پر مضبوط گھرانے سے تعلق رکھنے والا تو اس شعبہ وکالت میں سما جائے گا مگر اپنے بل بوتے پر میدان میں آنے والے کیلئے معیار اور طرزِ سفر مختلف ہو گا.
جب نوجوان وکیل کچہری کا رخ کرتا ہے تو اسے یہ راہنمائی بھی میسر نہیں ہوتی کہ اس نے کونسے سینئر وکیل صاحب کے چیمبر میں بحیثیتِ ایسوسی ایٹ خود کو مربوط کرنا ہے، سیاسی نام اور پیشہ ورانہ مہارت کے نام کے درمیان فرق کرنا اس سطح پر نئے آنے والے نوجوان کے لئے قدر مشکل ہوتا ہے اور بدقسمتی سے وہ اپنے استاد کے انتخاب میں غلطی کا شکار ہو جاتا ہے جس کا اثر پوری زندگی باقی رہتا ہے.
نوجوان وکیل کو ڈگری کے حصول کے فوراً بعد بارکونسل فنڈ اور فیس کے نام پر خطیر رقم جمع کروانا ہوتی ہے جوکہ اس مرحلے میں ایک مشکل ترین کام ہے، بار کونسل سے لائسنس کے حصول کے بعد بار ایسوسی ایشن کی ممبر شپ کے لیے ہزاروں روپے جمع کروانا ہوتے ہیں جو کہ نئے آنے والے وکیل کے لئے مشکل ترین مرحلہ ہے.
سینئر وکیل صاحب/استاد محترم کا رویہ اور طرزِ عمل گہرے اثرات مرتب کرتا ہے ، جونئر/نوجوان وکیل بعض اوقات سینئر کے ساتھ از راہِ مروت سیاست کا شکار ہو جاتا ہے (یا بعض اوقات اپنے دوستوں کی وجہ سے وہ اس دلدل میں پھنس جاتا ہے). سینئر وکیل صاحب اس سے پیشہ وارانہ خدمات ضرور لیتے ہیں مگر اس نوجوان سے یہ پوچھنا ضروری نہیں سمجھتے کہ آپ کے پاس آنے جانے کا کرایہ خرچ ہے یا کھانا کھانے کے لیے جیب خرچ موجود ہے؟ (سوائے چند ایک ناموں کے اکثر حضرات کا رویہ بالکل یہی ہے).
سینئر وکیل صاحب اپنے جونئر کو کسی قسم کی مالی معاونت کو ایک سنگین جرم سمجھتے ہیں اور بار ایسوسی ایشن بھی نوجوانوں کی معاونت کیلئے بنائے گئے اصولوں کو امتیازی سلوک کا شکار بناتی ہے جہاں "لوکل کمیشن" ، "کورٹ آکشنر" اور دیگر امور میں نوجوان وکلاء کو شامل نہیں کرتے اور ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر نوجوان وکلاء کو ان کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے،
سیکھنے کے مراحل میں ایک استاد/ سینئر بیک وقت 3 سے زیادہ ایسوسی ایٹس پر توجہ نہیں دے سکتا مگر دوسروں کو دکھانے کے لیے ایسوسی ایٹس کی ایک فوج اپنے گرد جمع کرتے ہیں جس کے باعث نئے وکلاء کو مناسب توجہ اور کام میسر نہیں آتا اور اس بات کا علم ہونے تک نوجوان وکیل اپنا پیشتر وقت ضائع کر دیتا ہے.
اس ساری صورتحال کے بعد جو نوجوان باقی بچ جائیں تو انہیں اپنی ذاتی اور انفرادی وکالت شروع کرنے کے لیے کچہری میں چیمبر کا حصول ایک مشکل ترین امر ہوتا ہے جہاں وہ قیادت جو ہمیشہ نوجوانوں کے مسائل کا نعرہ مار کر ووٹ حاصل کرتی ہے وہی نوجوانوں کے لئے راہ کی رکاوٹ بنتی ہے.
نوجوانوں کے حقوق پر شپ خون کرنے والوں میں ایک تعداد جعلی وکیلوں کی ہے جن کے سدباب کے لئے بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشن ناکام نظر آتی ہے اور ایسی قوتوں کے خاتمے کے لئے جرات مندانہ اقدام کرنے سے گریزاں نظر آتی ہے. اس کے ساتھ ساتھ وہ سرکاری ملازمین جو اپنی عمر گزار کر تمام حکومتی مراعات حاصل کر لیتے ہیں وہ عمر کے آخری حصے میں نوجوانوں کے حقوق کو پامال کرتے ہیں اور سپرداری تک کے معاملات ہڑپ کر جاتے ہیں.
یہ وہ بنیادی مسائل ہیں جن سے نوجوان وکلاء کی کثیر تعداد دوچار ہے. وکلاء قیادت سے گزارش ہے کہ نوجوان وکلاء کے مستقبل کو محفوظ تر بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں.
واپس کریں