دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق کا قیام
محمد ریاض ایڈووکیٹ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
قرارداد مقاصد، 1949 جو آرٹیکل 2-اے کے ذریعہ آئین پاکستان کا حصہ بن چکی ہے اس میں طے کیا گیا تھا کہ ریاست پاکستان ایسا آئین بنائے گی جس میں اقلیتوں کے لیے آزادانہ طور پر اپنے مذاہب کا دعویٰ کرنے اور اس پر عمل کرنے اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دینے کا مناسب بندوبست کیا جائے گا۔اور جس میں اقلیتوں اور پسماندہ اور پسے ہوئے طبقات کے جائز مفادات کے تحفظ کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں گے۔آرٹیکل 20کے مطابق قانون، امن عامہ اور اخلاقیات کے تابع، ہر شہری کو اپنے مذہب کو اختیار کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کا حق حاصل ہوگا۔ اور ہر مذہبی فرقے کو اپنے مذہبی اداروں کے قیام، دیکھ بھال اور انتظام کا حق حاصل ہوگا۔ آرٹیکل 36میں مذکور ہے کہ ریاست اقلیتوں کے جائز حقوق اور مفادات کا تحفظ کرے گی، بشمول وفاقی اور صوبائی خدمات/نوکریوں میں ان کی مناسب نمائندگی کو یقینی بنا کر۔ قومی اسمبلی کے رواں اجلاس میں قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق بل کی منظوری دے دی گئی یاد رہے سینٹ میں یہ بل پہلے ہی منظور کیا جاچکا ہے۔ اب صدر مملکت کی منظوری کے بعد یہ بل باقاعدہ قانونی شکل اختیار کرلے گا اور بہت جلد قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق قائم کردیا جائے گا۔یاد رہے یہ قانون سازی 2014میں سپریم کورٹ کے سوموٹو مقدمہ کے فیصلہ اور آئین پاکستان کے درج بالا آرٹیکلز اور خصوصا آرٹیکل 144کے تابع کی گئی ہے۔ آرٹیکل 144 کے تابع بلوچستان اور خیبرپختونخواہ اسمبلیوں میں قراردادیں پاس کی گئی تھیں اور پاکستانی پارلیمنٹ سے کہا گیا تھا کہ قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق کے قیام کے لئے قانون سازی کی جائے۔ آئیے اس بل کے نمایاں نکات کا جائزہ لیتے ہیں۔
کمیشن کی تشکیل و ترتیب:
کمیشن کا ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں ہوگا اور دیگر ذیلی دفاتر پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی قائم کئے جاسکیں گے۔ یہ کمیشن بشمول چیئرمین سترہ اراکین پر مشتمل ہوگا۔ جسکی ترتیب کچھ یوں ہوگی ایک چیئرمین، چاروں صوبوں سے دو دو ممبران (ایک مرد اور ایک خاتون جنکا تعلق متعلقہ صوبے کی غالب اقلیتی کمیونٹی سے ہو) جن کو صوبائی حکومتیں نامزد کریں گی، اسلام آباد کی حدود سے ایک اقلیتی رکن، قومی کمیشن برائے انسانی حقوق سے ایک رکن، خواتین کی حیثیت سے متعلق قومی کمیشن سے ایک رکن، قومی کمیشن برائے بچوں کے حقوق سے ایک رکن،انسانی حقوق کی وزرات سے 21 ویں گریڈ کا ایک آفیسر، قانون و انصاف کی وزارت سے 21 ویں گریڈ کا ایک آفیسر، مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی کی وزارت سے 21 ویں گریڈ کا ایک آفیسر اور وزارت داخلہ سے 21 ویں گریڈ کا ایک آفیسر۔ کمیشن کے اراکین کی تعیناتی کے لئے وزارت داخلہ سیکریٹریٹ کے فرائض دیتے ہوئے وزیراعظم کے منظوری کے لئے سفارش کردہ نامزدہ اراکین کے نام بھجوائے گی۔ کمیشن ایک باڈی کارپوریٹ ہو گی، جس میں دائمی جانشینی اور ایک مشترکہ مہر ہو گی، جس کے پاس منقولہ اور غیر منقولہ دونوں قسم کی جائیداد حاصل کرنے اور رکھنے اور معاہدے کرنے کا اختیار ہو گا، اور مذکورہ نام سے کمیشن کسی کے خلاف اور کمیشن کے برخلاف قانونی چارہ جوئی کی جاسکے گی۔ یاد رہے کمیشن کا چیئرپرسن چیف ایگزیکٹو آفیسر اور پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر ہوگا۔کمیشن کے چیئرمین و سرکاری ملازمین کے علاوہ دیگر اراکین کے عہدے کی معیاد چار سال ہے۔کمیشن کا چیئرمین و دیگر اراکین وزارت انسانی حقوق کے ذریعہ اپنا استعفیٰ وزیراعظم کو بھیج سکتے ہیں۔ کمیشن کے کسی عہدہ کی جگہ خالی ہونے کی بناء پر نئی تعیناتی نوے روز کے اندرکی جائے گی۔ چیئرمین و دیگر اراکین کی عہدوں سے برطرفی کے لئے آئین کے آرٹیکل 209 یعنی سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی کو اختیار کیا جائے گا۔
چیئرمین کمیشن کی تعیناتی کا طریقہ کار:
سپیکر قومی اسمبلی چیئرمین سینٹ سے مشاورت کے بعد قومی اسمبلی و سینٹ سے حکومتی اور حزب اختلاف کے بینچو ں سے دو دو اراکین (ترجیحا غیر مسلم ممبران) پر مشتمل پارلیمانی کمیشن تشکیل دے گا۔ یاد رہے پارلیمانی کمیٹی کے لئے اراکین کی نامزدگی حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے قائدین کریں گے۔ چاروں اراکین چیئرمین کی نامزدگی کرسکیں گے۔چیئرمین کے انتخاب کے لئے فیصلہ اکثریتی رائے پر کیا جائے گا۔ اگر پارلیمانی کمیٹی کے اراکین کسی ایک امیدوار کے بارے میں اکثریتی فیصلے تک نہ پہنچ سکے، تو کمیٹی تین شارٹ لسٹ کردہ امیدواروں کی ایک پینل لسٹ وزیراعظم کو بھیجے گی، وزیراعظم اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے پینل لسٹ میں کسی ایک کو کمیشن کا چیئرپرسن مقرر تعینات کردے گا۔ چیئرمین کی غیر موجودگی میں وزیراعظم کمیشن کے کسی بھی ممبر کو زیادہ سے زیادہ نوے دنوں کے لئے قائم مقام چیئرمین مقرر کرے گا۔
کمیشن کے افعال:
آئین پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے لئے دی گئی ضمانتوں کے نفاذ کا جائزہ اور نگرانی کرنا اوراقلیتوں کے حقوق کے فروغ اور تحفظ کو یقینی بنانا۔ اقلیتوں کے حقوق کے متعلق موجودہ یا مجوزہ پالیسیوں یا پروگراموں، عمل درآمد منصوبوں، قانون سازی، قواعد، ضوابط، انتظامی امور، یا دیگر مثبت اقدامات کا جائزہ لینا اور متعلقہ حکومت کوترامیم کی سفارش کرنا، اقلیتوں کیساتھ امتیازی سلوک کی روک تھام اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مشورے دینا یا تجویز مرتب کرنا۔ اقلیتوں کے حقوق کے فروغ اور تحفظ کے لیے قومی ایکشن پروگرام تیار کرنا۔ بین الاقوامی اقلیتوں، حقوق، رپورٹس اور کنونشنز کا مطالعہ کرنا اور حکومتی رپورٹس، تجاویز اور سفارشات کو فراہم کرنا جو ایسے حقوق یا معاہدوں اور کنونشنز کے موثر اطلاق کے لیے ضروری ہیں۔اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی یا اس طرح کی کسی بھی خلاف ورزی سے متعلق موصول ہونے والی شکایات پر ڈیٹا بیس قائم کرنا اور برقرار رکھنا بصورت دیگر ایسی شکایات کمیشن کے نوٹس میں آنا۔متاثرین کوقانونی طریقہ کار کے بارے میں مشورے و رہنمائی فراہم کرنا اور متعلقہ حکام کے ساتھ ان کی شکایات کی دادرسی میں مدد فراہم کرنا۔ پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر اداروں میں اقلیتوں کے ملازمت کے کوٹہ کے نفاذ کو یقینی بنانا اور اس کی نگرانی کرنا۔ ازخود نوٹس یا کسی متاثرہ شخص کی طرف سے کسی وفاقی، صوبائی حکومت یا ادارے، سرکاری یا نجی ادارے، محکمے، اتھارٹی یا کسی وفاقی، صوبائی یا مقامی حکومت کے اہلکاروں کی جانب سے اقلیتوں کے حقوق کی فراہمی میں رکاوٹ یا خلاف ورزی کی بابت درخواست پر متاثرہ فرد کی حوصلہ افزائی کیساتھ ساتھ قانونی چارہ کے ذریعہ دادرسی فراہم کرنا۔ پاکستان بھر میں خصوصی مواقع، تہواروں پر اقلیتوں اور انکی عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے متعلقہ محکموں کے ساتھ رابطہ قائم کرنا۔ کسی بھی متعلقہ قانون، قواعد، ضوابط اور پالیسی کے تحت، اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق سول سوسائٹی کے فورم یا پولیس یا عدالت میں جاری کاروائی میں فریق بن کر حصہ لینا۔ قانون کے تابع، کسی اقلیتی فرد کی حراست کی قانونی حیثیت کا پتہ لگانے کے لئے کمیشن کا کوئی رکن یا اس کے ذریعے مجاز کوئی بھی شخص حکومت یا اس کی ایجنسیوں کے زیر کنٹرول کسی تھانے، جیل یا کسی دوسری حراستی جگہ کا دورہ کر سکتا ہے اور اگر ضروری ہو تو متعلقہ حکام کو مناسب قانونی اقدامات کی سفارش کی جائے گی۔ اقلیتوں کو درپیش مسائل کے تجزیہ کے لیے مطالعہ، تحقیق اور دیگر ضروری مداخلتوں کو اسپانسر کرنااوراقلیتوں کو بااختیار بنانا اور ترقی کے لیے حکومت کو مناسب سفارشات دینا۔ قانون کے تابع متعلقہ محکمے سے اقلیتی برادریوں سے متعلق معلومات، ڈیٹا اور دستاویزات حاصل کرنا اور سول سوسائٹی کے گروپس، اداکاروں اور دیگراداروں کے ساتھ مشاورت، مکالمے اور سیمینار منعقد کروانا تاکہ اقلیتوں کے مسائل پر بیداری کو فروغ دیا جا سکے۔ اقلیتوں کے حقوق، عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کی صورت حال کی نگرانی کرنا اور جہاں ضروری ہو، کسی بھی رکاوٹ سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے اعلیٰ عدلیہ کی رہنمائی اور مدد حاصل کرنا۔ متعلقہ قانون کے تحت، سوشل میڈیا پر کسی بھی امتیازی، نفرت انگیز مواد یا دیگر تفرقہ انگیز مواد کو ہٹانے کے لیے متعلقہ حکام سے سفارش کرنا،اورایسے مواد کے ناشرین اور تخلیق کاروں کے خلاف قانون کے تحت مناسب کارروائی کے لئے قانونی چارہ جوئی کروانا۔اقلیتوں سے متعلق کسی بھی معاملے اور خاص طور پران کو درپیش چیلنجوں کے بارے حکومت کے ذریعے پارلیمنٹ کو خصوصی رپورٹ پیش کرنا۔ بین الاقوامی فورمز میں حصہ لینااور دنیا بھر کے انسانی حقوق کے ماہرین کے ساتھ بات چیت کرنا۔ یکجہتی کو فروغ دینے اور نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے دلت اور دیگر ذاتوں سمیت اقلیتوں کے تمام گروہوں کے انضمام کے لیے خصوصی اقدامات کرنا اور سماجی آزادی کے لیے پالیسی اقدامات کی سفارش کرنا۔ اس ایکٹ کے تحت اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی کے کسی بھی واقعے کی تحقیقات اور انکوائری منعقد کرنا۔ کمیشن انسانی حقوق کے مسائل پر خود مختار حقائق تلاش کرنے والی رپورٹس کی نگرانی اور تیار کرے گا اور کارروائی کے لیے حکومت کو پیش کرے گا۔ درج بالا افعال سے متعلق یا اتفاقی طور پر ایسے دیگر کاموں کو انجام دینا جو کمیشن اس ایکٹ کے تحت اقلیتوں کے حقوق کے فروغ اور تحفظ کے لیے ضروری سمجھے۔
کمیشن کے اختیارات:
کمیشن، اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایات کی انکوائری کرتے ہوئے، حکومت یا اس کے ماتحت کسی دوسری اتھارٹی یا ادارے سے معلومات یا رپورٹ طلب کر سکتا ہے۔ کمیشن کو، اس ایکٹ کے تحت شکایات کی انکوائری کرتے ہوئے، درج ذیل امور کے سلسلے میں مجموعہ ضابطہ دیوانی، 1908 کے تحت مقدمہ چلانے والی سول عدالت کے تمام اختیارات حاصل ہوں گے۔گواہوں کو طلب کرنا اور ان کی حاضری کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کرنا اور حلف پر ان کی جانچ کرنا، دستاویزات طلب کرنا، حلف ناموں پر ثبوت اکٹھے کرنا؛ کسی بھی عدالت یا دفتر سے عوامی ریکارڈ یا اس کی کاپی طلب کرنا اور گواہوں یا دستاویزات کی جانچ کے لیے کمیشن تعینات کرنا۔کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی بھی فرد کو طلب کرے۔ انکوائری کے لئے کسی بھی استحقاق سے مشروط اس شخص کے ذریعہ معلومات کو حاصل کیا جائے گا۔کمیشن اس ایکٹ کے تحت ہونے والی انکوائری کی تکمیل پر درج ذیل میں سے کوئی ایک قدم اٹھا سکتا ہے، جیسا کہ جہاں انکوائری اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی یا کسی سرکاری ملازم کی طرف سے اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی روک تھام میں لاپرواہی کا انکشاف کرتی ہو، تو کمیشن متعلقہ فرد یا افراد کے خلاف حکومت یا اتھارٹی کو قانونی چارہ جوئی یا ایسی دوسری کارروائی شروع کرنے کی سفارش کر سکتا ہے۔ اور یہ کہ متعلقہ حکومت یا اتھارٹی سے متاثرہ فرد یا اس کے خاندان کے افراد کو فوری طور پر عبوری ریلیف دینے کی سفارش کرے جیسا کہ کمیشن ضروری سمجھے۔ملزم اور شکایت کنندہ یا اس کے نمائندے کو انکوائری رپورٹ کی ایک کاپی فراہم کرنا۔ کمیشن اپنی انکوائری رپورٹ کی ایک نقل اپنی سفارشات کے ساتھ متعلقہ حکومت یا اتھارٹی کو بھیجے گا۔ جو، ایک ماہ یا اس سے زیادہ وقت کے اندر جس کی کمیشن اجازت دے سکتا ہے، اپنا جواب جمع کرائے گا۔ کمیشن اپنی انکوائری رپورٹ کو اپنی سفارشات اور اس پر حکومت یا اتھارٹی کے جواب کے ساتھ اپنی ویب سائٹ پر شائع کرے گا۔
واپس کریں