دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سیاسی خانہ بدوش اور سیاسی ہجرتیں۔خالد خان
No image کسی بھی سیاسی جماعت سے کسی کارکن یا رہنما کا کسی دوسری پارٹی میں جانا کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہوتی۔ سب سے خطرناک رویہ یہ ہے کہ جب اس سیاسی جماعت کے قائدین اور کارکن ببانگ دہل کہیں کہ کسی کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور ہمارا سفر یونہی جانبِ منزل جاری رہے گا۔ یہ بات بذاتِ خود انتہائی حساس بلکہ خود فریبی کے زمرے میں آتی ہے۔ متعلقہ سیاسی جماعت اپنے نظریات اور منشور کے بارے میں اتنی بے حس ہو چکی ہے کہ اُسے کسی ساتھی کے آنے جانے سے کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔
دوسری جانب، سیاسی، نظریاتی اور انقلابی رہنماؤں کی سیاسی ہجرتیں بھی رُتوں اور موسموں سے بڑھ کر جاری رہتی ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ سیاسی رہنما مجھے مہاجر پرندے لگتے ہیں جو سردیوں سے گرمیوں کی طرف اڑتے پھرتے رہتے ہیں۔ کیا ان رہنماؤں کے ارتقائی عمل کے نتیجے میں نظریات بدلتے رہتے ہیں؟ نہیں، ایسا بالکل بھی نہیں۔ ان کے نظریات مستحکم، جامد اور ٹھوس ہوتے ہیں۔ ان کا نظریہ صرف اقتدار ہوتا ہے، اور اس میں ان کا کوئی قصور نہیں، کیونکہ غیر مرئی اور نادیدہ طاقتیں حکمران بدلتی رہتی ہیں۔ ان کی پرواز قطعی فطری اور جائز ہوتی ہے۔
ہماری سیاست کا المیہ ہی غیر سیاسی ہونا ہے۔ ہماری نظریاتی غربت کی وجہ ہمارا خالی الذہن ہونا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر اصول، اخلاق اور جمہوریت باقی نہیں رہی بلکہ روزِ اول سے ہی مذکورہ عوامل عنقا تھے۔ جن جماعتوں کا آغاز جاگیرداروں نے کیا، انہوں نے اپنی جماعتوں کو اپنی جاگیر کی طرح چلایا اور قیادت وراثت کے ذریعے گھروں کے اندر منتقل ہوتی رہی۔ کارکنان کو مزارع سمجھا گیا اور ان سے وہی سلوک روا رکھا گیا۔ دوسرے درجے کے رہنماؤں کو درباری اور مصاحب تصور کیا گیا اور ان کے ساتھ بھی وہی برتاؤ ہوا۔
جاگیرداروں کے بعد سیاست میں سرمایہ داروں کی انٹری ہوئی، جن کے لیے سیاسی جماعت کارخانہ، کارکن پیداواری مشین کے پرزے، اور دوسرے درجے کے قائدین فورمین ہی رہے۔ ساتھ ہی ساتھ، مذہبی تاجروں کا بھی سیاست میں داخلہ ہو گیا جنہوں نے خدا پر سیاست کی، عوام کو گناہ گار سمجھا اور خود کو نجات دہندہ قرار دے کر خدا اور بندے کے درمیان رابطے کی ذمہ داری سنبھال لی۔
نظریات ان تمام سیاسی فرقوں کے صرف کاروباری اصول بن کر رہ گئے۔ منشور اور نظریے ان کے برانڈز تھے، جن کی پیکنگ وقت اور مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق بدلتی رہی۔ سیاسی رہنماؤں کے لیے کبھی معیوب نہیں رہا کہ وہ اپنے نظریات اور اصولوں سے 180 ڈگری کے زاویے پر مخالف غوطہ لگائیں۔ یہی چلن رفتہ رفتہ کارکنان اور دوسرے درجے کے قائدین میں بھی سرایت کرتا رہا۔
سیاسی جماعتوں کے مالکان نے جس طرح اپنا تھوکا ہوا چاٹا، جس طرح اپنے نظریات، عقائد اور اصولوں پر سمجھوتے کیے اور جس طرح اپنی اقتصادی اور سماجی حیثیت بدلی، وہ کارکنان اور قائدین کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھا۔ سیاست جو کبھی خدمت، عبادت اور شرافت ہوا کرتی تھی، اب ایک مکمل کاروبار ہے۔ کاروبار میں رشتے نہیں نبھائے جاتے، صرف مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے۔
سیاسی جماعتیں اور ان کے مالکان ہر طرح کے سیاسی، انسانی اور سماجی اخلاق سے عاری ہو چکے ہیں، اور یہی کلچر اب ہر جماعت میں اوپر سے نیچے تک سرایت کر چکا ہے۔ تاہم، اب بھی ہر جماعت کو ہمہ وقت ایسے جذباتی نوجوان میسر ہوتے ہیں جو اس کے نظریے کا بھرم رکھتے ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں میں ایسے گروہ بھی مکمل طور پر سرگرم ہوتے ہیں جن کے مفادات ان جماعتوں کے قائم رہنے اور اس فرسودہ نظام کے بقا سے جڑے ہوتے ہیں اور وہ کارکنان اور عوام الناس کو ورغلاتے ہیں۔
نظریاتی اور ذہین لوگ اب کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں ہوتے، وہ کنارہ کش رہتے ہیں اور کسی انقلابی پارٹی کے انتظار میں ہوتے ہیں، تاکہ طبقاتی سیاست کے ذریعے سماجی انصاف کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کر سکیں۔ سیاسی جماعتوں میں اب نظریات، خدمات اور وفاداری کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی ہے۔ اب صرف پیسہ اور طاقت بولتا ہے۔ منشیات کے تاجروں، قاتلوں، ڈاکوؤں، حرام خوروں اور دولت مند افراد کے لیے جب چاہیں، جس جماعت سے چاہیں، رکنِ پارلیمنٹ یا وزیر بن کر اپنے کاروبار کو مزید ترقی دینا ممکن ہو چکا ہے۔
سیاسی جماعتیں جمہوریت کے نام پر صرف سرمایہ داروں کی دلالی اور سہولت کاری کر رہی ہیں۔
بچاؤ کی صرف دو ہی صورتیں ہیں:
موجودہ سیاسی نظام کا خاتمہ یا طبقاتی سیاست۔
باقی سب مایا ہے۔
واپس کریں