سرد جنگ کبھی ختم نہیں ہوئی صرف واشنگٹن کی ترجیحات بدل گئی ہیں/جواد اسد

سینیئر امریکی حکام کے حالیہ بیانات نےبہت سے لوگوں کے ابرو اٹھا دیے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ یوکرین کے مذاکرات کے آگے بڑھتے ہی واشنگٹن روس کے موقف کو بہتر طور پر سمجھنے لگا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وزیر دفاع پیٹر ہیگستھ نے اعلان کیا کہ یورپ کے واحد تحفظ کے ضامن کے طور پر کام کرنے والے امریکہ کا دور ختم ہو گیا ہے۔امریکہ نے دفاع کے بڑے حصہ دار کے طور پر اس بوجھ کومزید اٹھانے سے انکار کردیا ہے۔
کیا یہ روس کی سفارتی فتح ہے؟ ابھی تک نہیں۔ ابھی ایک طویل راستہ آگے ہے۔ لیکن واشنگٹن کے ان اشاروں کو محض حکمت عملی کے طور پر مسترد نہیں کیا جانا چاہیے۔ بلکہ، وہ ایک تزویراتی سمجھوتے کے بڑھتے ہوئے امکان کی تجویز کرتے ہیں – وہی مقصد جو روس نے دسمبر 2021 میں اپنے یورپی سیکورٹی اقدامات کے ساتھ تلاش کیا تھا۔ افسوسناک طور پر، بین الاقوامی نظام کو اس مقام تک پہنچانے کے لیے بہت سی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، یہ ایک سنگین یاد دہانی ہے کہ عالمی معاملات میں اہم تبدیلی شاذ و نادر ہی پرامن طریقے سے آتی ہے۔
80 سالوں سے، یورپی سیکورٹی آرڈر روس کے خلاف متعصبانہ رویے پر مبنی رہا ہے۔ یہاں تک کہ جب سوویت یونین یا روس نے باضابطہ طور پربطور سرمایہ دار ملک معاملات میں شرکت کی، یہ محض روسی اثر و رسوخ کو محدود کرنے کا طریقہ کار تھا۔ بین الاقوامی نظام کی جنگ کے بعد کی پوری ‘قانونیت ‘، جیسا کہ آنجہانی ہنری کسنجر نے مشاہدہ کیا، روس پر مشتمل ہے۔ 1945 کے بعد، مغربی ممالک نے روس(اس وقت کا یو ایس ایس آر ) کی روک تھام کو اپنی خود مختاری سے بھی زیادہ ترجیح دی۔ اس اصول کو ترک کئے بغیر پرانے رویے کا خاتمہ اور اس کی جگہ نئی صورت حال کو قبول کرنامشکل ہے۔
امریکہ میں آج کی سیاسی ہلچل اس تبدیلی کو قابل فہم بناتی ہے، حالانکہ ابھی تک یہ مکمل یقین کے مرحلے سے بہت دور ہے۔ یوکرین کے بارے میں واشنگٹن کی غلط پالیسی یورپ کے سیاسی ڈھانچے میں گہری تبدیلیوں کی محض علامت ہے۔ یہ یقین کرنا بے ہودہ ہوگا کہ روسی مفادات کے خلاف امریکی دشمنی جہالت کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔ امریکیوں کو اکثر دقیانوسی تصور کیا جاتا ہے کہ وہ خام ‘نودولتیے ہیں، لیکن سچ یہ ہے کہ ریاستیں طاقت اور مفاد کے حساب سے کام کرتی ہیں، جذبات یا غلط فہمیوں کی بنیاد پر نہیں۔
اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ، امریکہ ایک خودمختار طاقت ہے۔ اور اب، اس بے لگام خود مختاری کا نسبتاً زوال ترجیحات کا از سر نو
جائزہ لینے پر مجبور ہے۔
واشنگٹن کے پاس اب لامتناہی غیر ملکی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی طاقت اور وقت نہیں ہے۔ اس کے رائے دہندگان – جو بلآخر اس بل کی حمایت کرتے ہیں – مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے قائدین گھریلو خدشات اور مسائل پر توجہ دیں۔ ایسے حالات میں روس کے ساتھ تنازعہ کو ختم کرنے کی ضرورت سب سے اہم ہو جاتی ہے۔
بڑھتے ہوئے چین اور کم ہوتے عالمی اثر و رسوخ کا سامنا کرتے ہوئے، واشنگٹن کو پرانے وعدوں سے چمٹے رہنے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یورپی سیٹلائٹ یا کیف حکومت کے لیے سپورٹ ایک ناقابل برداشت عیاشی بن گئی ہے۔ حقیقت میں، یورپ کے لیے امریکی سیکورٹی ضمانتیں ہمیشہ ٹھوس مادی شکل سے زیادہ افسانوی تھیں۔ ان کا بنیادی مقصد نفسیاتی تھا – روس کو یہ باور کرانا کہ مغرب ناقابل تسخیر ہے، اس طرح یورپ میں امریکی فوجی موجودگی کو جواز بنائے بغیر چیلنجوں کو روکنا تھا۔
یہاں تک کہ سرد جنگ کے دوران، 1950 کی دہائی کے وسط کے بعد، سوویت یونین کا مغربی یورپ پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ 1991 کے بعد، تمام روس نے یورپ سے تجارت کا سسلسلہ جاری رکھا ۔ دوسری جنگ عظیم سے اب تک اسے براعظم پر کسی بیرونی ‘محافظ’ کی حقیقی ضرورت کبھی نہیں تھی۔یہ ضرورت یورپ پر امریکی محافظانہ بالادستی اور سوشلزم سے ان کو محفوظ رکھنے کی ایک نفسیاتی چال سے زیادہ کچھ نہیں تھا اس لیے کہ روس نے کبھی بھی نہ تو مغربی یورپ کے خلاف جارحیت کی او رنہ اہی اس کے ارادے کا ا؎ظہار کیا ۔اور پھر یو ایس ایس آر کے روس میں تبدیل ہونے کے بعد تو یہ عدم تحفظ کایہ وہم محض ایک بے ہودگی ہے۔
مزید یہ کہ امریکی سیاست دان اپنے لوگوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ کوئی بھی امریکی حکومت غیر ملکیوں سے رسمی وعدوں کو پورا کرنے کے لیے اپنے شہریوں کی جانیں قربان نہیں کرے گی۔ یہاں تک کہ پچھلے تین سالوں کے دوران، امریکہ اور روس کے درمیان کشیدگی کا سب سے بڑا خطرہ یورپ کے فرضی دفاع سے نہیں، بلکہ امریکی مفادات سے منسلک براہ راست سلامتی کے خطرات سے پیدا ہوا ہے۔
مغربی یورپی، یقیناً، طویل عرصے سے یہ سمجھ چکے ہیں کہ امریکی سلامتی کی ضمانتیں ایک آسان افسانہ ہے۔ بالٹکس میں سب سے زیادہ روسوفوبک حکومتیں بھی یہ جانتی ہیں۔ لیکن کئی دہائیوں سے یورپی یونین کی ریاستیں حقیقی دفاعی اخراجات کے بوجھ سے گریز کرتے ہوئے روس کے خلاف معاندانہ پالیسیوں کا جواز پیش کرنے کے لیے اس افسانے پر انحصار کرتی رہیں۔ یہ یورپی منصوبے کو ایک ساتھ رکھنے والا نظریاتی پھندہ بن گیا۔ اس کے بغیر، وہ نقصان میں ہیں: ان کے پاس مشترکہ نظام کے لیے کوئی متبادل نقطہ نظر نہیں ہے جو روس سے دشمنی پر مبنی نہ ہو۔
یورپ سے امریکی قیادت کی ممکنہ پسپائی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ روس کو جارحانہ انداز میں آگے بڑھنا چاہیے۔ اس کے برعکس، اسے ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ جنگ کبھی بھی روسی خارجہ پالیسی کا پسندیدہ ہتھیار نہیں رہا۔ پوری تاریخ میں، روس نے سفارت کاری کی حمایت کی ہے، یہاں تک کہ جب پیش رفت سست اور تنازعات کی وجہ سے رکاوٹوں کا سامنا کر رہی تھی۔ صبر اس کی بڑی طاقت رہا ہے۔
اس طرح، امریکہ کی یورپی تحفظات سے علیحدگی پر روس کا ردعمل ایک نپی تلی شکل میں اورمحتاط طریقے سے ظاہر ہونے کی توقع ہے۔ یہاں تک کہ روس اپنے امریکی ساتھیوں کو ان کے حلیفوں کو ان کے بدلتے ہوئے موقف کی ’وضاحت‘ کرنے میں مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔ بالآخر روس کے اپنے دفاع کے موقف کو درست اورعقلی بنیادوں پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ابھرتی ہوئی دنیا میں، تبدیلی کی تعریف عظیم الشان اعلانات سے نہیں ہوگی، بلکہ خودمختاری کے مستقل اعادہ اور ان فریبوں کی خاموش موت سے ہوگی جو کبھی بین الاقوامی تعلقات پر حکومت کرتے
واپس کریں