
ایک جانب اتحادی حکومت دن رات ملکی ترقی اور خوشحالی کے دعوے کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب دو دن قبل ہی سیکریٹری کابینہ ڈویژن نے واضح کیا ہے کہ ریاست اب مزید سرکاری نوکریاں فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں‘ کئی حکومتی کمپنیاں کاروبار کر رہی ہیں مگر منافع بخش نہیں ہیں ان اداروں کو یا تو بند کیا جائے گا یا نجکاری کے ذریعے چلایا جائے گا۔
اب آگے پڑھیں، ملکی زرمبادلہ ذخائر 20 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں اور مرکزی بینک کے مطابق مالی سال 25-2024 میں ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ترسیلات زر موصول ہوئیں جبکہ دوسری جانب پاکستان کا مجموعی قرضہ 74 ہزار ارب روپے سے بڑھ گیا ہے۔یعنی اس ملک کے ہر شہری کو تین لاکھ روپے سے زیادہ کا زبردستی مقروض بنا دیا گیا ہے۔ کچھ سمجھ آیا آپ کو کہ اس ملک میں یہ ہو کیا رہا ہے؟
ہو یہ رہا ہے کہ سودی قرض لے لے کر نظام چلایا جا رہا ہے،ہماری اپنی کوئی ان پٹ سرے سے ہے ہی نہیں۔ سرکاری نوکریوں کو تو چھوڑیں، پرائیوٹ سیکڑ کو اتنا تنگ کر دیا گیا ہے کہ وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر کہتا ہے کہ اب یہاں مذید کام ممکن نہیں،نتیجے میں بے روزگاری عام ہو رہی ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں غربت یعنی بے روزگاری کی سطح 44.2 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اب اس صورت حال میں اس ملک کی60 فیصد نوجوان آبادی روزگار کے لیئے کہاں جائے؟سیکریٹری کابینہ ڈویژن نے یہ واضح نہیں کیا۔
پاکستان کی بزنس کمیونٹی نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے حوالے سے کیے گئے حکومتی فیصلوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے 19 جولائی کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کردیا ہے۔ ہڑتال میں نہ صرف کراچی چیمبربلکہ تمام بڑے چیمبرز اس کا حصہ بنیں گے، ہڑتال دولاکھ روپے کے قانون، گرفتاری کے اختیارات اور دیگر کاروبار دشمن قوانین کے خلاف کی جا رہی ہے۔مطلب ایک تو پہلے ہی ملکی معیشت مندے کا شکار اور بے روزگاری عام ہے اور اوپر سے آپ نے مشکلات کھڑی کر کہ لوگوں کو کاروبار نہیں کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔مصدقہ اطلاعات کے مطابق ایف بی آر اب اپنے طور پر عوام الناس کے بینک اکاونٹس سے مختلف مدوں میں پیسے کاٹ رہا ہے،مثلاً سیلز ٹیکس وغیرہ اور جب متاثرہ اکاونٹ ہولڈر ایف بی آر کے دفتر جا کر اس فراڈ کی بابت پوچھتا ہے تو جواب ملتا ہے”مجبوری تھی اوپر سے بہت پریشر تھا“ یعنی ٹوٹل دھونس، دھاندلی اور بدمعاشی۔
کوئی ایکسپورٹ نہیں البتہ امپورٹ خوب ہے، جس باعث بچا کچا ڈالر باہر جا رہا ہے۔ قرضوں کے پیسوں اور بیرون ملک پاکستانی اپنی خون پسینے کی کمائی گھر مجبوراً والوں کو بھیجتے ہیں جسے ہم بڑے فخر سے ”زر مبادلہ زخائر“کہتے نہیں تھکتے۔ اب ایک بہت چھوٹی سی جھلک کے طور پر حکومتی کمپنیوں کی کارکردگی کا عالم بھی ملاحظہ فرمائیں ”گڈو پاور پلانٹ کی بندش سے 116 ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے، پارشل لوڈ ایڈجسٹمنٹ چارجز سے صارفین کو ایک سال میں 37 ارب کا نقصان ہوا،نیلم جہلم پراجیکٹ کے لیے عوام نے 75 ارب روپے دیے، لیکن کوئی فائدہ نہیں ملا جب کہ نیلم جہلم کی بندش سے ایک سال میں 35 ارب روپے کا نقصان بھی ہوا ہے۔ وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کل ہی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کو آگاہ کیا ہے کہ سالانہ 250 ارب روپے کی بجلی چوری ہورہی ہے“ یہی نہیں بلکہ ا س کے علاوہ بھی پاکستان اسٹیل مل ہو یا سوئی گیس کمپنی ہر جانب خسارہ ہی خسارہ نظر آئے گا جسے پورا کرنے کے لیئے پٹرول،بجلی، گیس مہنگی اور بے جا ٹیکس لگا کر اس ملک کی پچیس کروڑ بھیڑ بکریوں کی بار بار قربانی لی جاتی ہے۔
عالمی سود خور ساہو کار آئی ایم ایف بار ہا سمجھا چکا ہے کہ ہمارے تلوں میں تیل نہیں رہا،یعنی قرضہ اور اس کا سود ادا کرنے کے لیئے ہمارے پاس کوئی ٹھوس پلان نہیں ہے اور قرضہ واپسی کا واحد حل یہ ہے کہ حکومتی اور غیر ترقی اخراجات میں نمایاں کمی کی جائے لیکن اس کے بجائے حکمرانوں نے ایک آسان سا فارمولا پکڑا ہوا ہے کہ مسلسل طور پر اس ملک کے پچیس کروڑ عوام کی جیبوں پر ڈاکے مار مار کر قرضے اور ان کا سود ادا کیا جائے۔
واپس کریں