دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کے پی مالی اسکینڈل
No image ہمارے قومی وسائل جتنے بڑے پیمانے پر کرپشن کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں اس کی ایک نہایت ہولناک مثال خیبر پختونخوا کے سرکاری بینک کھاتوں میں 40ارب روپے سے زائد کی مالی بدعنوانی کے انکشاف کی شکل میں سامنے آئی ہے ۔ذرائع کے مطابق نیب کے چیئرمین کو اَپر کوہستان میں بڑی مالی بے ضابطگیوں سے متعلق مصدقہ معلومات موصول ہوئیں جس کے بعد تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔ ضلع کا سالانہ ترقیاتی بجٹ صرف ڈیڑھ ارب روپے تک ہوتا ہے لیکن گزشتہ پانچ برسوں میں 40 ارب روپے حکومتی بینک کھاتوں سے جعلی طورپر نکلوائے گئے ۔ صوبائی حکومت کے سیکورٹی اینڈ ڈپازٹ ورکس کا بینک کھاتہ جو ترقیاتی منصوبوں کی ادائیگیوں کیلئے مخصوص ہے، اسے بڑھا چڑھا کر بنائے گئے بلوں اور فرضی سیکورٹیز کے ذریعے استعمال کیا گیا۔ سرکاری بینک کے داسو اپر کوہستان برانچ کے کچھ ملازمین نے سرکاری فنڈ نجی کھاتوں میں منتقل کیے حتیٰ کہ ایک ڈمپر ڈرائیور کے اکاؤنٹ میں چار ارب روپے سے زیادہ کی رقم پائی گئی۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ آڈٹ اور اکاؤنٹس کے محکمے بھی اس دھوکا دہی کو نہ تو روک سکے نہ وقت پر اس کا پتا چلا سکے جس سے احتسابی نظام پر سنجیدہ سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ مالیاتی اسکینڈلز کے ہر دور میں سامنے آنے کے باوجود اس سلسلے کے جاری رہنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اسکینڈلز کی تحقیقات بالعموم کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچتیں ، کیس طول پکڑتا چلا جاتا ہے اور پھر معاملہ کسی نہ کسی طرح رفع دفع ہوجاتا ہے یا عدالتوں میں الزامات ثابت نہیں ہوتے۔ تاہم ملکی تاریخ کے اتنے بڑے اسکینڈل کو اس انجام سے دوچار نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے ایک ٹسٹ کیس بناکر نیب کو قومی سطح پر اپنی افادیت ثابت کرنی چاہیے کیونکہ جن دستاویزی ثبوت و شواہد کی موجودگی کا دعویٰ کیا گیا ہے بظاہر وہ بہت مضبوط ہیں اور اس کے بعد بھی الزامات ثابت نہ کیے جاسکے تو احتسابی عمل پر قوم کا اعتبار مزید کمزور ہوگا۔
اسکینڈل نہ صرف خیبر پختونخوا کے مالیاتی نظام کی سنگین خامیوں کو بے نقاب کرتا ہے بلکہ ممکنہ طور پر دانستہ طور پر کی گئی مالیاتی تباہ کاری کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ شواہد یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ اس کارروائی میں صرف چند بدعنوان اہلکار ہی نہیں بلکہ صوبے کی اعلیٰ قیادت کے کچھ عناصر بھی شامل تھے، جنہوں نے مالیاتی قواعد کو نظر انداز کرنے کی دانستہ اجازت دی۔
نیب خیبر پختونخوا کی ٹیم نے کئی دن داسو کوہستان میں گزار کر تمام متعلقہ ریکارڈ قبضے میں لیا۔ کرپشن کے اس بڑے حجم کو دیکھتے ہوئے نیب حکام نے اس معاملے کو ابتدائی انکوائری سے مکمل تحقیقات میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جیسے جیسے تحقیقات آگے بڑھ رہی ہیں، مزید دھماکہ خیز انکشافات کی توقع ہے اور امکان ہے کہ صوبائی حکومت کے اعلیٰ عہدیداران بھی اس اسکینڈل میں ملوث پائے جائیں گے۔ دستاویزات کے مطابق کوہستان میں سرکاری فنڈز کی بڑے پیمانے پر کرپشن اور غیر قانونی نکاسی کے معاملے کی تحقیقات کے سلسلے میں، قومی احتساب بیورو (نیب) نے 50کے قریب بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیئے ہیں۔
تاہم اس حوالے سے بعض کنٹریکٹرز اکاؤنٹس ہولڈرز سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے فراڈ اورخورد برد کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نیب کو شائد کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ہم قانون کے مطابق کمپنیاں چلارہے ہیں اور حکومتی ٹھیکوں کے عوض رقوم ملیں جس میں غبن یا خورد برد کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
واپس کریں