دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
شدت پسند مذہبی جتھے، سامراج کی سرمایہ کاری
No image ملکِ پاکستان میں موجود سر گرمِ عمل مختلف شدت پسند مذہبی جھتوں اور ان میں موجود مدرسوں کے نو عمر بچوں اور باریش نوجوانوں کو لاٹھیاں اور اسلحہ اٹھائے کسی دوسرے مذہبی مکتبہِ فکر کے خلاف احتجاج کرتے اور کفر کے فتوے لگاتے ہوئے دیکھا جائے تو انگریز سامراج کی پلانگ پر داد دیئے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ دستیاب ریکارڈ کے مطابق ہمیں معلوم ہونا چاہیئے کہ1906 سے قبل کوئی اہلِحدیث نہیں تھا،1896 سے پہلے کوئی مسلمان بریلوی نہیں تھا،1867 سے قبل بھی کوئی کلمہ گو دیوبندی نہیں تھا۔ اس سے بھی پیچھے چلے جائیں،250 ہجری سے قبل کوئی مسلمان حنبلی نہیں تھا،200 ہجری سے قبل کوئی اللہ کا بندہ مالکی اور شافی نہیں کہلاتا تھا،جبکہ150 ہجری سے قبل کوئی بھی حنفی اور جعفری نہیں تھا اور شیعہ سنی کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ با الفاظِ دیگر اللہ کا کلمہ پڑھنے والے تمام ہی مسلمان تھے۔
دیسی دانشور یہ غلط کہتے ہیں کہ انگریز سو سالہ پلاننگ کرتا ہے،انگریز ہزار سالہ پلانگ کرتا ہے،جیسا کہ اوپر بیان کیا ہے۔ انگریز اپنے منصوبوں پر بھاری سرمایہ کاری کرتا ہے اورپھر اپنے مذہبی ایجنٹوں کے زریعے مفادات اور نفع حاصل کرتا ہے۔ دیو بندی، سنی، اہلِ حدیث، شیعہ، بریلوی، قادیانی وغیرہ یہ تمام فرقے،پچھلے 150 برسوں میں ہی انگریز راج کے زمانے میں پیدا ہوئے، یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں۔
برطانوی سامراج کے برصغیر میں زمانہِ حکمرانی میں ہی سرزمینِ ہندوستان میں مذہبِ اسلام میں تفریق پیدا کرنے کی غرض سے سنیوں،وہابیوں، بریلویوں، شیعہ اور دیگر مکتبہِ فکر کے مختلف فرقوں اور برصغیر کے موجودہ پاکستان میں لاتعدا مدرسے سرمایہ کاری کی غرض سے قائم کیئے گئے جبکہ ساتھ ہی ساتھ درباروں اور مزاروں کا بھی وسیع و عریض جال بچھایا گیا اور اُسی تناسب سے مجاوروں، گدی نشینوں، مخدوموں اور پیروں کی بھی ایک بڑی تعداد پیدا کی گئی۔ جنہیں انگریز سامراج نے اپنا تنخواہ دار ایجنٹ مقرر کیا اور انہیں اس نوکری کے عوض ہزاروں ایکڑ زمینیں الاٹ کیں۔ یہیں سے اس خطے کے سادہ لوح مسلمانوں کو اللہ کی واحدانیت اور اسلام کی اصل روح سے نابلد کرنے کے لیئے پیر پرستی کا آغاز ہوا اور یہ سلسلہ وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتا چلا گیا اور آج پیر خانے ملکی سیاست میں ”اہم کردار“ ادا کر رہے ہیں۔ جب تک انگریز خطہِ برِصغیر میں موجودرہا اپنے ان خود کاشہ پودوں کی خوب حفاظت و نگہداشت کرتا رہا اور جب یہاں سے گیا تو اس وقت اس کے یہ پودے تن آور درخت بن چکے تھے جن کا ثمر اور فائدہ آج اسے مختلف صورتوں میں مل رہا ہے۔
مذہبی جذبات اور بنیاد پرستی کا فائدہ اٹھا کر ہی مختلف ادوار میں انگریز سامراج نے اپنے اہداف اور مقاصد پورے کیئے،تقسیمِ برِصغیر میں اسی مذہبی بنیاد پرستی نے ہی انگریز سامراج کا مسلمانوں کی تقسیم منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچایا۔20 سال سے زائد عرصہ تک جاری رہنے والی امریکہ اور روس کی سرد جنگ میں بھی مذہبی بنیاد پرستی کے باعث ”جہاد“ کے نام پر لڑائی لڑی گئی۔ اس ضمن میں سابق امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن اور سعودی حکمرانوں کے وہ بیانات بھی ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں ان کے اپنے بقول پاکستان میں مذہبی جنونیت، فرقہ واریت،مخصوص مذہبی مکتبہِ فکر، مذہبی انتہا اور شدد پسندی کو امریکی اسپانسرڈ جہاد کے لیئے پرو موٹ کیا گیا۔
ماضیِ قریب میں پاکستان کی اسپانسرڈ مذہبی تحریکوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان کے تانے بانے واضع طور پر عالمی اشٹبلشمنٹ یا سامراج سے جا کر ملتے ہیں جنہیں لوکل اشٹبلشمنٹ کے زریعے مخصوص مقاصد کے لیئے اپنی سیاست کے لیئے عالمی سامراج نے مذہبی کارڈ کے طور پر خوب استعمال کیا گیا بلکہ بار ہا استعمال کیا۔ مثال کے طور پر 1974ء کے واقعات کو دیکھ لیجئے،جب احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا اس ضمن میں تحریک مجلسِ احرار نے چلائی تھی‘ جس میں وقت گزرنے کے ساتھ، دوسرے گروہوں کو بھی شامل کیا گیا تھا،اس تحریک میں تحریکِ احرار کے مطابق دس ہزار افراد مارے گئے تھے۔ واقعات اس قدر خون ریز تھے کہ نتیجے میں پنجاب کے بڑے شہروں میں مارشل لا نافذ کرنا پڑا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ مذکورہ تحریک کے پسِ پردہ عالمی قوتیں کار فرما تھیں۔
اس کے بعد بھٹو مخالف 1977ء کی تحریکِ نظامِ مصطفی چلوائی گئی۔ اس میں لوکل اشٹبلشمنٹ کا کردار ادا کیا تھا، عالمی قوتیں کیسے پسِ پردہ متحرک تھیں، مالی وسائل کن قوتوں نے فراہم کیے، تاجروں اور عام پبلک کے مذہبی جذبات کو ابھار کر انہیں کیسے استعمال کیا گیا۔ یہ سب کچھ بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عیاں ہوتا چلا گیا۔ ابھی چند برس قبل ہی امریکی سامراج کے سامنے سر نہ جھکانے والی ایک منتخب حکومت(نواز شریف) کا تختہ الٹنے کے لیئے تحریکِ لبیک کو بھی استعمال کیا گیا تھا،جس میں انہی رضا کاروں کی خدمات حاصل کی گئیں جو 1970سے مذہب کا نام لے کر ڈنڈے چلاتے آئے ہیں۔
پاکستان جیسے نو آبادیاتی ملک میں دشمن کی جانب سے ایٹمی میزائل چلائے بغیر ملک کے کسی بھی حصہ کا امن تہہ و بالا کرنا مقصود ہو تو فقط کسی ایک مذہبی جھتے کی جانب سے کسی دوسرے مذہبی فرقے کو دو چارگالیاں دلوا دیجئے اور پھر ہر جانب آگ کا بھڑکنا دیکھئے۔ پاکستان میں مذہبی جتھوں اور فرقوں پر سامراجی سرمایہ کاری کا سلسلہ آج بھی جاری ہے کیونکہ یہ سامراج کے لیئے بہترین اور منافع بخش کاروبار ہے۔
واپس کریں