نو مئی سے پہلے سیاسی منظر خاصا مختلف تھا۔ بیرسٹر گوہر کا نام کوئی نہیں جانتا تھا۔شیر افضل مروت سے اور تو کجا پی ٹی آئی بھی واقف نہیں تھی۔ بہت سارے نام ایسے ہیں کہ جو پی ٹی آئی میں موجود تھے مگر پچھلی صفوں میں کہیں کھڑے تھے۔ وزیر اعلیٰ پختون خوا علی امین گنڈا پور عمران خان کے ایک جانثار کے طور پرمشہور تھے ۔عمر ایوب عمران کی کابینہ کے ایک گمنام سے وزیر تھے ۔پنجاب کے اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر کی صرف اتنی اہمیت تھی کہ وہ پنجاب میں بلا مقابلہ جیتنے والے ایم پی اے تھے۔ پی ٹی آئی کی لیڈر شپ میں بڑے بڑے اہم ترین نام شامل تھے،جو عمران خان کی حکومت میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے ۔غور کیا جائے تو ستاروں کی ایک کہکشاں تھی ۔پھر یوں ہوا کہ نو مئی ہو گیا۔ دنیا بدل گئی ۔کچھ ستارے ٹمٹمانے لگے بلکہ استحکام پاکستان پارٹی کے افق پر جھلملاتے دکھائی دئیے ۔
جن ستاروں نے غیرت کا مظاہرہ کیا ان میں زیادہ تر ابھی تک جیلوں میں چمک رہے ہیں ۔کچھ ستارے مفرور ہو گئے ۔کچھ ابھی تک مفرور ہیں۔ کچھ پکڑے گئے ۔کچھ نے پریس کانفرنسیں کر دیں۔ کچھ نے سیاست چھوڑ دی ۔پچھلی صفوں میں بیٹھے کھلاڑی آگے آنا شروع ہوئے ۔ خالی جگہیں پر ہونے لگیں ۔ورکرز لیڈر بننے لگے۔ عام کارکن لڑکیاں جیلوں میں گئیں توپورے ملک کی آنکھوں کا تارہ بن گئیں ۔یوں محسوس ہونے لگا جیسے پی ٹی آئی پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو رہی ہے۔ الیکشن آ گئے۔ بانی پی ٹی آئی کو سزائیں سنا دیں گئیں ۔پی ٹی آئی کو بطور جماعت الیکشن سے باہر کر دیا گیا۔ ان لوگوں کو ٹکٹ ملے جنہیں ان کے اپنے شہر میں کوئی نہیں جانتا تھا ۔مگر لوگوں نے انہیں عمران خان کے نام پر ووٹ دئیے ۔یعنی پی ٹی آئی نےکھمبے کھڑے کیے اور انہیں غیر متوقع طور پر ووٹ ملے ۔ نتائج اتنے عجیب و غریب تھے کہ فارم سینتالیس کا سہارا لینا پڑا پھر بھی پی ٹی آئی اکثریتی جماعت تھی ۔
رفتہ رفتہ معلوم ہوا کہ قوم تو اسی کے ساتھ ہے ۔پہلے وہ ہیرو تھا، پھر لیڈر بن گیا ،جیل میں گیا تو دیوتا بنتا چلا گیا۔ مرشد کہلانے لگا ۔جیل میں بیٹھ کر دنیائے سیاست پر حکمرانی کرنے لگا۔ ساری سیاست اسی کی ذات کے ارد گرد گھومنے لگی اور ابھی تک اسی کے ارد گرد گھوم رہی ہے ۔جو پارٹیاں اس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملتی گئیں وہ عوام میں زیرو ہوتی گئیں۔ میاں محمد نواز شریف جاتی امرا تک محدود ہو گئے ۔ آصف علی زرداری صدر ہوتے ہوئے بھی مقامی لیڈر لگتے ہیں ۔یہی دو سب سے بڑی سیاسی پارٹیاں تھیں۔ مولانا فضل الرحمن کو جب صورتحال کا اندازہ ہوا تو انہوں نے پی ٹی آئی کی طرف ہاتھ بڑھایا اور یک لخت پورے ملک میں ان کی عزت بحال ہوتی چلی گئی ۔محمود خان اچکزئی بڑے لیڈر کے طور پر سامنے آئے ۔
یہ سارا منظر نامہ خواجہ آصف کا یہ بیان پڑھ کر میری آنکھوں کے سامنے گھوم گیا ’’علی امین گنڈاپور خود بانی پی ٹی آئی کی جگہ لینا چاہتے ہیں، ان کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطے ہیں، مگر بانی پی ٹی آئی سمجھتے ہیں کہ یہ رابطے انکے کام آئیں گے، یہ سب ایک دوسرے کو استعمال کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت خاص طور پر خیبر پختونخوا کے رہنما نہیں چاہتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی جیل سے باہر آئیں۔ گنڈاپور چار دیواری میں الگ زبان استعمال کرتے ہیں اور اسٹیج پر آکر مولا جٹ بن جاتے ہیں‘‘۔
خواجہ آصف کے بیان میں جو سب سے اہم بات ہےوہ بانی پی ٹی آئی کی جگہ خالی ہونے کی بات ہے۔ تب ہی کوئی شخص وہ جگہ لے سکتا ہے جب وہ جگہ خالی ہو ۔مجھے جو کچھ نظر آرہا ہے وہ خواجہ آصف کے بیان کےبالکل برعکس ہے ۔میں دیکھ رہا ہوں کہ صرف دوتین ماہ میں بانی پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارہ ہونگے ۔ان کی جنبشِ ابرو پرگلشن کا کاروبار چلنے لگے گا ۔بادِ نو بہار گلوں میں رنگ بھرے گی ۔یقیناً آپ سوچ رہے ہونگے کہ میرے پاس اپنی اس پیشگوئی کے حق میں کیا دلیل ہو سکتی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی نظم طلوع اسلام میں ستاروں کی تنک تابی کو دلیل ِ صبح روشن قرار دیا تھا ۔اگر کوئی غور کرے تو اس وقت ستاروں کی تنک تابی دکھائی دے رہی ہے اور بےشک ان میں غور کرنے والوں کیلئے بڑی نشانیاں موجود ہیں۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ خیبر پختونخوا کے رہنما نہیں چاہتے کہ بانی پی ٹی آئی جیل سے باہر آئیں تویہ بھی خواجہ آصف کی خواہش سے زیادہ کچھ نہیں ، پی ٹی آئی کی کوئی لیڈر شپ بھی عمران خان کے بغیر کچھ نہیں۔ ابھی ورکرز نے عمرایوب کے ساتھ کیا کیا۔ہم سب نے دیکھا کہ انہیں پی ٹی آئی سیکریٹر ی شپ سے مستعفی ہونا پڑا۔ سلمان اکرم راجہ کو نیا سیکرٹری بنا دیا گیا۔ وہ پی ٹی آئی کے ایک نئے لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں اس سے پہلے ہم انہیں پانامہ کیس میں نواز شریف کی فیملی کے وکیل کے طور پر جانتے تھے ۔جہاں تک پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کا تعلق ہے تو اس وقت نون لیگ کےبڑے اہم نام پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے خواہش مند ہیں مگر رکاوٹ یہ ہے کہ پی ٹی آئی میں صرف دو لوگ ہیں ۔ایک بانی پی ٹی آئی اور دوسرے پی ٹی آئی ورکرز۔ سو کسی آنے والے کو اپنی جگہ اسی طرح بنانی پڑے گی جیسے شیر افضل مروت یا گوہر علی خان نے بنائی ہے اور یہ آسان راستہ نہیں ۔اتنی قربانیوں اور اتنی محنت کے باوجود پی ٹی آئی کا ایک حلقہ شیر افضل مروت کے خلاف رہا ہے ۔اگر اسے عمران خان کی حمایت نہ حاصل ہوتی تو کبھی کا پی ٹی آئی سے فارغ ہو چکا ہوتا اور پی ٹی آئی ورکرز اتنے سخت ہیں کہ ایک ذرا سی غلطی کے سبب ابھی تک فواد چوہدری کو معاف کرنے پر تیار نہیں، حالانکہ اس کی قربانیاں کوئی کم نہیں۔ اس وقت اگر ورکرز کے نزدیک کسی کی عزت ہے تو وہ شاہ محمود قریشی ہیں، پرویز الٰہی ہیں، یاسمین راشد ہیں، عمر سرفراز چیمہ ہیں، محمود الرشید ہیں،اعجاز چوہدری ہیں یا ایسے کچھ اور لوگ جو ابھی جیلوں میں ہیں۔
واپس کریں