دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
وہ سوال ہے جو ہر پاکستانی کے ذہن میں ہے۔تحریر: ڈاکٹر عتیق الرحمن
No image جب پنجاب کے لوگ 50 سے 80 روپے یونٹ کے حساب سے بجلی خرید رہے ہیں تو کشمیریوں کو 3 سے 15 روپے میں بجلی کیوں کر ملے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر پاکستانی کے ذہن میں ہے۔بھائی آپ کو معلوم ہے کہ بجلی کی اصل پیداواری لاگت کیا ہے؟ سب سے مہنگی تھرمل بجلی کی پیداواری لاگت بھی 15/20 روپے فی یونٹ سے زیادہ نہیں۔ اب آپ کیپیسٹی پیمنٹ کے نام پر اس بجلی کی قیمت بھی ادا کریں جو کبھی پیدا ہی نہیں ہوئی تو اس میں کشمیریوں کا کیا قصور؟ آپ بھی جد وجہد کرو اور ان پاور پروڈیوسرز کی غلامی سے نجات حاصل کرو، جو بجلی نہ پیدا کر کے بھی آپ سےقیمت وصول کر رہے ہیں۔ آپ یہ جدو جہد کریں، کشمیری آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔
یاد رہے کہ
ا۔ جو بجلی آزاد کشمیر میں پیدا ہوتی ہے، اس کی پیداواری لاگت 80 پیسے فی یونٹ سے زیادہ نہیں۔
۲۔ پن بجلی کے عوض صوبہ خیبر پختونخواہ کو 8.9 روپے فی یونٹ نیٹ ہائیڈل پرافٹ کی مد میں دئیے جا رہے ہیں۔
۳۔ 2019 تک آزاد کشمیر کو واٹر یوزیج چارجز کے نام پر منگلا کی پیداوار کیلئے 11 پیسے فی یونٹ ادا کئے جاتے تھے جب کہ نیلم جہلم کی پیداوار کے عوض 46 پیسے ادا کئے جاتے تھے۔
۴۔ اس ریٹ میں کوئی حالیہ تبدیلی ہوئی ہے، جس کے بارے میں اعداد و شمار دستیاب نہیں۔تاہم اتنا بتایا جا سکتا ہے کہ 3300 میگاواٹ کے فنکشنل پروجیکٹس کی پیداوار کے عوض جو آمدن آزاد کشمیر کو ہونی ہے، اس کا بجٹ تخمینہ 1.7 ارب روپے ہے۔ یہ تخمینہ ظاہر کرتا ہے کہ واٹر یوزیج چارجز وہی 11 پیسے کے حساب سے لگائے گئے ہیں، وگرنہ صرف منگلا کی پیداوار کا معاوضہ 1 روپیہ فی یونٹ کے حساب سے 10 ارب بننا چاہئے تھا۔
یاد رہے کہ بجلی سے متعلقہ کسی بھی فیصلہ سازی میں آزاد کشمیر حکومت شامل ہی نہیں۔ آزاد کشمیر کی نہ مشترکہ مفادات کونسل میں نمائندگی ہے، نہ نیشنل فائنانشل کمیشن میں، نہ نیپرا میں اور نہ ہی پاکستان کے کسی منتخب عوامی فورم میں؛ تو پاکستانی اشرافیہ کے کئے گئے احمقانہ فیصلوں کا بوجھ کشمیر کے لوگ کیوں اٹھائیں؟ آپ کے نمائندگان نے غلط فیصلے کئے ہیں تو آپ کا حق بنتا ہے کہ حکمرانوں کے گریبان پکڑ کر ان سے یہ ظالمانہ معاہدات ختم کروائیں،اور کیپیسٹی پیمنٹ کا ظلم بند کروائیں۔ اور ابتدا فوجی فاؤنڈیشن کی ملکیتی انرجی کمپنیوں سے کیجئے۔
بعض لوگوں کو یہ تشویش ہے کہ پیداواری لاگت سے کم قیمت پر سپلائی کا بوجھ پنجاب کے عوام کو اٹھانا پڑے گا۔ تو جناب عرض یہ ہے کہ ایسا اس لئے ہے کہ ہر فیصلہ سازی کا محور پنجاب میں ہے۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ہر علاقے کی ڈسکو distribution company کو الگ سے مالی خودمختاری دی جائے۔ ہر ڈسٹری بیوشن کمپنی اپنے لئے بجلی کی خریداری اور تقسیم کی ذمہ دارخود ہو اور اپنے بجٹ کے مطابق ریٹ طے کرے۔ ہمارا یا خیبر پختون خواہ والوں کا بوجھ لاہور والے بھلا کیوں اٹھائیں؟ ہر ڈسٹری بیوشن کمپنی وفاق کو صرف ٹیکس ادا کرنے کی پابند ہ، باقی وہ اپنا بجٹ اور نرخ خود طے کریں۔
بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ آزاد کشمیر میں موجود منصوبہ جات تو بیرونی سرمایہ کاری سے بنے ہیں تو پھر کشمیریوں کو کیا حق ہے کہ وہ ریٹ پوچھتے یا طے کرتے پھریں، تو جناب عرض یہ ہے کہ جس حساب سے پختونواہ کو نیٹ ہائیڈل پرافٹ دیا جا رہا ہے اس حساب سے ہائیڈل پرافٹ دے دیجئے، پھر بے شک آپ اپنی مرضی کے ریٹ لگاتے پھریں۔
اب رہی یہ بات کے آٹے کے ریٹ پر سبسڈی مانگنے کا کیا جواز ہے، اس پر انشاء اللہ ایک جداگانہ نوٹ لکھوں گا، لیکن اس سے پہلے چند دیگر معروضات پیش خدمت ہیں
1۔ دریا کی جو گرز گاہ ہوتی ہے، یہ ایک مکمل ایکو سسٹم بناتی ہے۔ اس میں جتنی اہمیت ڈیلٹا کے قریب بسنے والے لوگوں کی ہے، اتنی ہی اہمیت منبع کے قریب بسنے والے لوگوں کی ہوتی ہے۔ سب لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنا چاہئے، اور ایک دوسرے کو حریف کے طور پر دیکھنے کی بجائے اکنامک پارٹنر اور ایکو سسٹم کے حصہ کے طور پر دیکھا جائے۔
2۔ وسائل سے استفادہ اور اس کی تقسیم چھوٹے علاقائی یونٹس کے سپرد کر دی جائے اور وفاق کو اس بات کو ترک کردینا چاہئے کہ وہ انرجی مارکیٹ میں مداخلت کرے اور ایک علاقے کے وسائل دوسرے علاقے کو سستے نرخوں پر فراہمی پر اصرار کرے۔ وفاقی اکائیاں خود ایک دوسرے سے مارکیٹ کے تقاضوں کے مطابق ڈیل کریں
3۔ ہر علاقے کی ڈسکو کو انرجی کی خریداری کے معاملہ میں آزادی دی جائے۔ راولپنڈی اسلام آباد کے علاقے میں بجلی کی ڈسٹری بیوشن مقامی ڈسکو کے سپرد کر دیں اور ڈسکو کو آزاد چھوڑ دیں کے وہ پختونخواہ سے بجلی خریدے یا منگلا سے خریدے یا کوٹ ادو تھرمل پروجیکٹ سے خریدے۔ تمام ڈسکوز مارکیٹ کو دیکھتے ہوئے اپنی سہولت کے مطابق بجلی خود خریدیں اور خود تقسیم کریں
4۔ منگلا ڈیم سے حکومت پاکستان نے 50 سال تک بغیر واٹر یوزیج چارجز استفادہ کیا، اب عدل کا تقاضا یہ ہے کہ اس پروجیکٹ کو حکومت آزاد کشمیر کے سپرد کر دیا جائے۔ باقی سبھی ہائڈرو پروجیکٹ مارکیٹ ریٹ کے مطابق واٹر یوزیج چارجز ادا کریں
5۔ آئندہ کوئی بھی ہائیڈرو پروجیکٹ یا تو حکومت آزاد کشمیر خود بنوائے یا پھر آکشن کے زریعے واٹر یوزیج چارجز طے کر کے بڈ bid جیتنے والی کمپنی کو ہائیڈرو پروجیکٹ کا لائسنس دیا جائے
6۔ گندم پر سبسڈی کو بتدریج ختم کیا جائے، تاہم حکومت پنجاب آزاد کشمیر کو آبیانہ ادا کرے جس طرح ڈوگرہ کے دور میں پنجاب سے کشمیر کو آبیانہ ادا کیا جاتا تھا۔
7۔ ہر ہائیڈرو پروجیکٹ پر منافع مقامی حکومتیں جمع کریں، اور وفاقی حکومت کو ایک پہلے سے طے شدہ فارمولا کے مطابق ٹیکسز میں حصہ دیا جائے
8۔ اسی فارمولا کے مطابق بلوچستان کے وسائل بلوچ حکومت کی نگرانی میں دئے جائیں، خیبر پختون خواہ والے اپنے ہائیڈرو پروجیکٹس خود چلائیں اور بجلی دیگر صوبوں کو فروخت کریں۔ حکومت آزاد کشمیر مندرجہ بالا طریقہ کار کے مطابق ریونیو جمع کرے اور اسے دیگر صوبوں کے ساتھ ٹرانزیکشنز میں استعمال کرے
یہ وہ سفارشات ہیں کہ اگر ان کو سنجیدگی سے لیا جائے تو وفاقی اکائیوں کی ایک دوسرے سے بدظنی ختم ہو گی، ایک دوسرے کو حریف کی بجائے اکنامک پارٹنر کے طور پر دیکھنے کا رجحان پیدا ہوگا اور وفاق مضبوط ہوگا۔ اگر وفاق مداخلت کر کے ایک وفاقی یونٹ کے حقوق اپنی زیر نگرانی دوسرے وفاقی یونٹ کو دلوائے گا، تو پھر وفاقی یونٹس میں خلیج بڑھتی جائے گی اور وفاق کو اپنے یونٹس کا بوجھ سنبھالنا مشکل ہو جائے گا
واپس کریں