دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
یومِ شہدائے جمّوں اور قومی تقاضے:سردار ساجد محمود
No image یومِ شہدائے جمّوں( 6 نومبر) دراصل تاریخِ برصغیر کے اُن المناک ابواب میں سے ایک ہے، جس نے تقسیمِ ہند کے پس منظر میں انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ۱۹۴۷ء کے اواخر میں جمّوں کے مسلم باشندے جس ظلم و بربریت کا نشانہ بنے، وہ محض ایک قتلِ عام نہیں بلکہ ایک منظم و مربوط منصوبے کی عملی شکل تھی، جس کا مقصد علاقے کی آبادیاتی ساخت کو بدلنا اور مسلمانوں کو وہاں سے بے دخل کرنا تھا۔ اس دن کو منانے کا مقصد اُن لاکھوں بے گناہ انسانوں کی قربانیوں کو یاد رکھنا ہے جنہوں نے اپنی جانیں صرف اس لیے قربان کیں اور اپنے گھر بار کو خیرآباد کہا کہ اُن کا وجود، ایمان اور شناخت مٹائی نہ جا سکے۔
شیخ محمد عبداللہ، جو اُس وقت کشمیر کی سیاست میں ایک مرکزی حیثیت رکھتے تھے کو اگرچہ اس المیے کا زمہ دار ٹھہرایا جاے تو بے جا نہ ہوگا مگر وہ بھی نہ صرف افسردہ تھے بلکہ انہوں نے کھلے الفاظ میں اس جبر کی مذمت کی۔ اُنہوں نے کہا کہ "میں اُن لوگوں سے پوچھتا ہوں جنہوں نے جمّوں کے مسلمانوں کو بیدخل کیا ہے، کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح ریاست میں امن قائم ہو جائے گا؟" (Rai, Hindu Rulers, Muslim Subjects, Princeton University Press 2004)۔ پھر اپنی ایک تقریر کے دوران انہوں نے جموں میں ہندوؤں سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ آپ لوگوں نے تو مسلمانوں کا یہاں سے صفایا ہی کر دیا ہے۔ ( بحوالہ آتش چنار).یہ بیانات نہ صرف اس واقعے کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ اس امر کی تصدیق بھی ہے کہ ریاستی حکومت نے اس قتلِ عام کو روکنے کے بجائے، اسے ممکن بنایا۔
اسی دوران، مہاتما گاندھی نے ۲۵ دسمبر 1947ء کو دہلی میں اپنے ایک خطاب میں اعتراف کیا کہ "جمّوں کے ہندو اور سکھ مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں، اور کشمیر کے مہاراجہ اس کے ذمہ دار ہیں۔ بے شمار مسلمان مارے گئے اور عورتوں کی عصمتیں لوٹی گئیں" (Hussain, Ijaz, Kashmir Dispute: An International Law Perspective, Quaid-i-Azam University 1998)۔ گاندھی جی کا یہ بیان نہ صرف اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ یہ قتلِ عام فی الحقیقت وقوع پذیر ہوا بلکہ یہ اس بات کی علامت بھی ہے کہ اس ظلم کو اُس وقت کے بھارتی سیاسی رہنما بھی تسلیم کر رہے تھے۔
پاکستانی قیادت نے بھی اس سانحے کی شدید مذمت کی۔ قائدِاعظم محمد علی جناح اور وزیراعظم لیاقت علی خان دونوں نے اسے "انسانیت کی تذلیل" قرار دیا۔ اس وقت کے پاکستانی اخبارات میں یہ مؤقف واضح کیا گیا کہ "جمّوں کے مسلمانوں پر ظلم، تقسیمِ ہند کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے اور عالمی ضمیر کو اسے نظرانداز نہیں کرنا چاہیے" (Hussain, 1998)۔ اس موقع پر پاکستان نے اقوامِ متحدہ میں کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھایا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ جمّوں کے شہداء کی قربانی نے بین الاقوامی انصاف کی بحث کو جنم دیا۔
الیسٹر لیمب (Alastair Lamb) اپنی کتاب Kashmir: A Disputed Legacy میں لکھتے ہیں کہ جمّوں کے فسادات میں تقریباً دو لاکھ مسلمان مارے گئے یا انہیں ہجرت پر مجبور کیا گیا، اور یہ ریاستی تعاون سے ہونے والا منظم نسلی صفایا تھا۔ وہ مزید بیان کرتے ہیں کہ اگر اس قتلِ عام کو روکا جاتا تو شاید کشمیر کا مسئلہ اس شدت سے نہ ابھرتا (Lamb, Oxford University Press 1992)۔ اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جمّوں کا سانحہ محض ایک مقامی المیہ نہیں بلکہ ایک تاریخی موڑ تھا جس نے پورے خطے کی سیاست کا رخ بدل دیا۔

Joseph Korbel،
جو اقوام متحدہ کے کمیشن برائے ہندوستان و پاکستان کے رکن رہ چکے ہیں، اپنی تصنیف Danger in Kashmir میں اس سانحے کو "planned atrocity" قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ "جمّوں کے مسلمانوں کے خلاف جو کچھ ہوا، وہ کسی اچانک ردِعمل کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک طویل سیاسی سازش کا انجام تھا، جس کا مقصد ڈوگرا راج کی بقاء اور بھارت سے الحاق کے راستے کی ہمواری تھی" (Korbel, Danger in Kashmir, Princeton University Press 1954)۔
اس ضمن میں لارڈ برڈ ووڈ کی تصنیف Two nation and Kashmir
کے مطابق مہاراجہ ہری سنگھ اور تارا دیوی نے جموں قلعہ میں موجود سات ہزار رائفلوں اور ایمونیشن کو اگست کے دوسرے ہفتے کے دوران اپنی نگرانی میں آر ایس ایس کے تربیت یافتہ غنڈوں میں تقسیم کیا ۔
ڈاکٹر اعجاز حسین (قائداعظم یونیورسٹی) اپنی کتاب Kashmir Dispute: An International Law Perspective میں اس قتلِ عام کو بین الاقوامی قانون کی روشنی میں "Ethnic Cleansing" کے زمرے میں رکھتے ہیں، اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ایسے جرائم کے مرتکب ریاستی عناصر بین الاقوامی انسانی قانون کے مطابق جواب دہ ہونے چاہئیں (Hussain, 1998)۔

Cardinal W. Wood اپنی تصنیف The Making of Modern Kashmir میں اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہیں کہ جمّوں میں ہونے والے واقعات نے کشمیر کے عوام میں خودارادیت کا جذبہ مزید مضبوط کیا، کیونکہ ظلم و بربریت نے اُنہیں یہ احساس دلایا کہ آزادی اور عدل کے بغیر امن ممکن نہیں (Wood, The Making of Modern Kashmir, Routledge Press 1994)۔
ان تمام تاریخی حوالہ جات اور قائدین کے بیانات کے تناظر میں جب ہم یومِ شہدائے جمّوں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ صرف ماضی کی یاد نہیں رہتی بلکہ ایک قومی فریضہ بن جاتی ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ لازوال قربانیاں دینے والوں نے اپنی جانیں اس بنیادی اصول کے لیے دیں کہ ظلم کے خلاف خاموشی گناہ ہے۔ آج کے قومی تقاضے اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہم نہ صرف ان شہداء کی قربانی کو تسلیم کریں بلکہ اُن کے مشن کو آگے بڑھائیں — یعنی انصاف، حقِ خودارادیت، بین المذاہب ہم آہنگی، اور انسانی وقار کی حفاظت کے لیے جدوجہد جاری رکھیں۔
قوموں کی زندگی میں ایسے دن محض رسومات کے طور نہیں ہوتے بلکہ ان کے وجود کی سمت متعین کرتے ہیں۔ یومِ شہدائے جمّوں اس عہد کی تجدید ہے کہ قربانی کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا، اور جب قومیں اپنے شہداء کو بھول جاتی ہیں، تو وہ اپنی تاریخ سے بھی کٹ جاتی ہیں۔ اسی کے ساتھ، یہ دن بین الاقوامی برادری کے لیے بھی ایک یاد دہانی ہے کہ وہ انصاف کے عالمی اصولوں کے مطابق اپنا کردار ادا کرے۔ دنیا کو چاہیے کہ وہ بھارت کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے لیے مجبور کرے تاکہ مسئلۂ جموں و کشمیر کو جموں وکشمیر کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل کیا جا سکے، اور جمّوں کے وہ لاکھوں مہاجرین جو آج بھی اپنے وطن سے محروم ہیں، انہیں دوبارہ اپنی سرزمینوں پر آباد ہونے کا موقع مل سکے۔ یہی شہداء جمّوں کے خون کا اصل تقاضا اور انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے۔
واپس کریں