دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا کسی فوجی جتھے کو حق حکمرانی دیا جا سکتا ہے؟طاہر سواتی
No image ان کا پہلا دعویٰ یہ ہے کہ اصل علم وہ ہے جو انھوں نے حاصل کیا ہے۔ باقی جتنے علوم ہیں وہ دنیاوی ہیں اور اُنہیں ہم جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ چند سالہ درس نظامی کی بنیاد پر ہم ساری دنیا سے افضل و برتر ہیں۔
اس دعوے کی بنیاد پر دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ چونکہ صرف ہم ہی اہل علم ہیں، اس لیے حکمرانی کا حق صرف ہمیں ہی حاصل ہے۔
اور تیسرا دعویٰ یہ ہے کہ اگر اقتدار ہمیں مل جائے تو پھر ہمارا حکم، حکم خداوندی کا درجہ رکھتا ہے اور نافرمانی کی صورت میں آپ پر حد جاری کی جا سکتی ہے۔
اسی سوچ کا مظاہرہ ہم نے سوات میں دیکھا، جب ٹی ٹی پی والے صرف معمولی سوال پر لوگوں کو اٹھاتے تھے اور اگلے دن ان لٹکی ہوئی لاش ملتی تھی۔ یہی سوچ آج کل پورے افغانستان پر قابض ہے، اور یہی سوچ پاکستان میں ان کے ہم نواؤں پائی جاتی ہے۔
اس کو یہ شریعت، خلافت یا امارت کا نام دیتے ہیں، جو اسلام اور قرآن کی بنیادی تعلیمات کے بالکل مخالف ہے۔
اگر ان کا یہ محدود علم ہی سب کچھ ہے اور باقی علوم فاسد ہیں، تو پھر ایک مولوی کا بچہ جب بیمار ہوتا ہے، وہ اسے بڑے مولوی صاحب کے پاس لے کر جاتا ہے یا کسی فاسق و فاجر لیکن لائق ڈاکٹر سے اس کا علاج کرواتا ہے؟ یا کوئی مولوی صاحب جب مکان بنانے کا ارادہ کر لیں تو کسی اچھے مستری کو تلاش کرتے ہیں یا اپنے مہتمم صاحب کی خدمات لیتے ہیں؟
جب اس قسم کے معمولی معاملاتِ زندگی کے لیے ان کا علم بے کار ہے، تو پھر زمام اقتدار کیسے ان کے حوالے کی جا سکتی ہے، جس میں کسی شخص یا خاندان کی نہیں بلکہ ایک قوم کی زندگی کے پیچیدہ معاملات چلائے جاتے ہیں؟
پوری دنیا میں فوج ایک منظم اور تربیت یافتہ محکمہ شمار ہوتا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل میں بھی ریٹائرڈ فوجی جرنیل صدارت یا وزارت عظمیٰ تک پہنچے ہیں، لیکن کیا کسی فوجی جتھے کو حق حکمرانی دیا جا سکتا ہے؟
اسی طرح اگر سائنس، کمپیوٹر ، انجینئرنگ، بینکنگ، ریاضی یا معیشت کے ماہرین اپنے اپنے جتھے بنا لیں اور مطالبہ کر دیں کہ چونکہ ہمارا علم سب سے افضل ہے، اسی لیے حکمرانی کا حق صرف ہمیں حاصل ہے، تو کیا کوئی قوم اسے قبول کر لے گی؟
جب کسی بھی اعلیٰ پائے کے اہل علم کا طبقہ صرف اپنے علم کی بنیاد پر قوم پر حکمرانی کا حق نہیں رکھتا، تو پھر ایک مخصوص مذہبی سوچ کے حامل افراد کو یہ حق کیسے دیا جا سکتا ہے؟
ہاں، جس طرح باقی شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عوام میں جائیں، اگر اکثریت انہیں حکمرانی کے لیے چنتی ہے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اسی طرح کسی مدرسے کا فارغ التحصیل بھی یہ حق رکھتا ہے کہ اپنے علاقے کے عوام کی خدمت کر سکے۔
مذہبی طبقہ کے لوگ اگر سیاست کرنا چاہیں تو جمہوری اور پرامن جدجہد ان کا حق ہے ۔
پچھلے دنوں میرے افغانستان کے بارے میں ایک پوسٹ ایک دیوبندی دوست نے لکھا تھا کہ جب حکومت ہے وزارت خارجہ میں بڑے بڑے قابل افسران موجود ہیں تو آپ کو اس قسم کے معاملات پر تبصرے کرنے کی کیا ضرورت ہے ،
یہی سوال ان سے بنتا ہے کہ جب حکومت اور اس کے سارے محکمے موجود ہیں تو پھر فرزند رضوی اور اس کے جتھے کو خارجہ پالیسی پر انتشار پھیلانے کی کیا ضروت ہے ، پھر آئے روز جمعیت اور جماعت والے کشمیر ، فلسطین کے نام پر کیوں اودھم مچاتے رہتے ہیں ؟
ان کا علمُ مخصوص مذہبی معامللات تک محدود ہے ،ان مساجد و مدارس کو اسی تک محدود رہنا چاہئے ،
وقت آگیا ہے کہ انٗ کی بلیک میلنگ سے ہمیشہ کے لئے جان چھڑا لی جائے ،
مدارس کا نصاب بدلے بغیر یہ سوچ ختم نہیں ہوسکتی ،
انٹر تک تعلیمُ ہر بچے کے لئے لازمی ہونا چاہئے ، اس کے بعد جس طرح باقی مضامین میں چار سالہ بی ایس کی ڈگری ملتی ہے اسی بنیاد پرٗ علوم اسلامیہ کے چار سالہ پروگرام ہونے چاہئے ، آگے کسی میں ہمت ہے تو ماسٹر اور ڈاکٹر یٹ کی ڈگری حاصل کرلے ۔
اور پھر حکومت اس قسم کے تعلم یافتہ عالموں کوٗ معقول تنخواہ پرُ بڑے مدارس اور مساجد میں نوکری دلوائے تاکہ وہ ایک باوقار زندگی گزار سکیں ۔
مساجد کسی مخصوص سیاسی یا مذہبی گروہ کے نہیں ایک علاقے کے معاشرتی مذہبی مراکز ہوتے ہیں ، ظاہر ہے کسی علاقے میں ہر مکتب فکر اور سیاسی سوچ رکھنے والے افراد موجود ہوتےُ ہیں ، کسی مولوی کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ مسجد کے پلیٹ فارم کو اپنے مخصوص مسلکیُ یا سیاسی ایجنڈے کےُ لئے استعمال کرے ۔
واپس کریں