کرکٹ ۔ گیم یا برطانوی نوآبادیاتی ذلتوں میں سے ایک؟ عثمان چغتائی

برطانوی سامراج جب ہندوستان پر قابض ہوا تو اس نے صرف زمینوں اور وسائل پر قبضہ نہیں کیا، ہمارے ذہنوں کو بھی غلام بنایا۔ ریلوے، بیوروکریسی، انگریزی زبان — یہ سب ان کے مقاصد کے لیے تھا، نہ کہ ہماری ترقی کے لیے۔ اور انہی تحائف میں ایک کھیل بھی تھا ، کرکٹ۔
آپ کو معلوم ہے برطانیہ آج بھی دنیا کی 10 بڑی معیشتوں میں شامل ہے، لیکن ان کے اپنے ملک میں کرکٹ "مین اسٹریم" کھیل نہیں ۔ وہاں فٹبال، رگبی اور ٹینس کے اسٹیڈیم بھرے ہوتے ہیں، جبکہ کرکٹ صرف چند کلبوں اور کم ویلیو ایونٹس تک محدود ہے۔ لیکن ہم؟ ہم نے اسے اپنی "قومی شناخت" بنا لیا ہے۔
کرکٹ کی اصل فطرت ہی "بائی چانس" ہے۔ ایک بال پر پورا میچ پلٹ سکتا ہے۔ ایک کیچ چھوٹ جائے، یا ایک شاٹ لگ جائے تو قسمت کا پانسہ پلٹ جاتا ہے۔ یہی سوچ ہماری قوم میں اتر گئی ہے کہ زندگی بھی ایسے ہی ہے — بس ایک شاٹ مار دو، ایک نصیب کا دن آ جائے تو سب بدل جائے گا۔
اسی لیے ہم محنت کے بجائے قسمت کو کوستے ہیں۔ بزنس میں نقصان ہو تو کہتے ہیں "قسمت خراب تھی"۔ کھیت میں پیداوار کم ہو تو کسان بولتا ہے "یہ تو نصیب کا لکھا ہے"۔ نوکری نہ ملے تو جواب ملتا ہے "اوپر والے کو یہی منظور تھا"۔ لیکن کبھی کوئی یہ سوال نہیں کرتا: کیا ہماری محنت مکمل تھی؟ کیا ہماری منصوبہ بندی درست تھی؟ کیا ہم نے سسٹم بہتر بنانے کی کوشش کی؟
دنیا کے دیگر کھیلوں کو دیکھ لیجیے: فٹبال، ہاکی، ریسلنگ، جیمنسٹکس یا باسکٹ بال۔ ان میں جیت قسمت پر نہیں بلکہ محنت، حکمت عملی اور مستقل مزاجی پر ہوتی ہے۔
جب کوئی ٹیم ہارتی ہے تو اگلے دن دوبارہ پریکٹس کرتی ہے۔ اپنی غلطیاں دیکھتی ہے۔ نئی حکمت عملی بناتی ہے۔ یہی اصول بزنس، تعلیم اور ذاتی زندگی پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ لیکن ہم نے کرکٹ سے یہ سیکھا ہے کہ ہار کا ذمہ دار بس "قسمت" ہے۔
کرکٹ اور جوا
کرکٹ دنیا کا سب سے زیادہ "جوا زدہ" کھیل ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں سالانہ 10 کھرب روپے سے زیادہ کا جوا کرکٹ پر لگتا ہے۔ صرف بھارت اور پاکستان میں ہی لاکھوں لوگ اس لعنت کی وجہ سے اپنی جمع پونجی کھو بیٹھتے ہیں۔
ورلڈ کپ 2019 پر صرف بھارت میں غیر قانونی بیٹنگ کا حجم 400 ارب روپے سے زیادہ تھا۔ کئی لوگ اس نقصان کو برداشت نہ کر سکے اور خودکشی کر بیٹھے۔ سوچنے کی بات ہے: اگر ایک کھیل پوری قوم کو جوا کھیلنے کی تربیت دے رہا ہو تو کیا یہ ہمارے معاشرے کو بہتر بنا سکتا ہے؟
کبھی غور کیا آپ نے کہ کرکٹ اولمپکس کا حصہ کیوں نہیں؟
وجہ صاف ہے: یہ کھیل جسمانی فٹنس اور مسلسل سرگرمی کا معیار پورا نہیں کرتا۔ ٹیم کے صرف دو کھلاڑی کھیل رہے ہوتے ہیں، باقی بیس "تماشائی" بنے کھڑے رہتے ہیں۔ اولمپکس میں صرف وہ کھیل شامل ہوتے ہیں جن میں جسم، دماغ اور اعصاب ہر لمحہ متحرک رہتے ہیں۔
ادارے اور کرکٹ کا کلچر
یہی رویہ ہمیں پاکستان کے اداروں میں بھی نظر آتا ہے۔
کچھ لوگ کام کرتے ہیں، باقی محض "میدان میں موجود" رہتے ہیں۔
کچھ افسر فیصلے کرتے ہیں، باقی صرف "تماشائی" ہیں۔
کیا یہ کرکٹ کے کلچر کی عکاسی نہیں؟ کہ دو بندے کھیل لیں گے، باقی مزے کریں گے۔
کھیل جو ہمیں بدل سکتے ہیں
اگر ہم باقی کھیلوں کو بھی سپورٹ کریں تو نتیجہ بالکل مختلف ہو سکتا ہے۔
فٹبال اور ہاکی ہمیں ٹیم ورک سکھاتے ہیں۔
جیمنسٹکس اور ریسلنگ برداشت اور خود اعتمادی بڑھاتے ہیں۔
باسکٹ بال اور والی بال فیصلہ سازی میں تیزی لاتے ہیں۔
یہ کھیل ہمیں یہ سکھاتے ہیں:
"ہار گئے ہو؟ دوبارہ کوشش کرو۔ محنت بڑھاؤ۔ منصوبہ بہتر بناؤ۔ اگلی بار جیتو گے۔"
دنیا کے دیگر کھیلوں کو دیکھ لیجیے: فٹبال، ہاکی، ریسلنگ، جیمنسٹکس یا باسکٹ بال۔ ان میں جیت قسمت پر نہیں بلکہ محنت، حکمت عملی اور مستقل مزاجی پر ہوتی ہے۔
جب کوئی ٹیم ہارتی ہے تو اگلے دن دوبارہ پریکٹس کرتی ہے۔ اپنی غلطیاں دیکھتی ہے۔ نئی حکمت عملی بناتی ہے۔ یہی اصول بزنس، تعلیم اور ذاتی زندگی پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ لیکن ہم نے کرکٹ سے یہ سیکھا ہے کہ ہار کا ذمہ دار بس "قسمت" ہے۔
کرکٹ اور جوا
کرکٹ دنیا کا سب سے زیادہ "جوا زدہ" کھیل ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں سالانہ 10 کھرب روپے سے زیادہ کا جوا کرکٹ پر لگتا ہے۔ صرف بھارت اور پاکستان میں ہی لاکھوں لوگ اس لعنت کی وجہ سے اپنی جمع پونجی کھو بیٹھتے ہیں۔
ورلڈ کپ 2019 پر صرف بھارت میں غیر قانونی بیٹنگ کا حجم 400 ارب روپے سے زیادہ تھا۔ کئی لوگ اس نقصان کو برداشت نہ کر سکے اور خودکشی کر بیٹھے۔ سوچنے کی بات ہے: اگر ایک کھیل پوری قوم کو جوا کھیلنے کی تربیت دے رہا ہو تو کیا یہ ہمارے معاشرے کو بہتر بنا سکتا ہے؟
اولمپکس میں جگہ کیوں نہیں؟
کبھی غور کیا آپ نے کہ کرکٹ اولمپکس کا حصہ کیوں نہیں؟
وجہ صاف ہے: یہ کھیل جسمانی فٹنس اور مسلسل سرگرمی کا معیار پورا نہیں کرتا۔ ٹیم کے صرف دو کھلاڑی کھیل رہے ہوتے ہیں، باقی بیس "تماشائی" بنے کھڑے رہتے ہیں۔ اولمپکس میں صرف وہ کھیل شامل ہوتے ہیں جن میں جسم، دماغ اور اعصاب ہر لمحہ متحرک رہتے ہیں۔
ادارے اور کرکٹ کا کلچر
یہی رویہ ہمیں پاکستان کے اداروں میں بھی نظر آتا ہے۔
کچھ لوگ کام کرتے ہیں، باقی محض "میدان میں موجود" رہتے ہیں۔
کچھ افسر فیصلے کرتے ہیں، باقی صرف "تماشائی" ہیں۔
کیا یہ کرکٹ کے کلچر کی عکاسی نہیں؟ کہ دو بندے کھیل لیں گے، باقی مزے کریں گے۔
اگر اس قوم کو بدلنا ہے تو کھیل بھی بدلنے ہوں گے۔ کامیاب قوموں کے کھیل کھیلیں — وہ کھیل جو محنت، ٹیم ورک، منصوبہ بندی اور برداشت سکھاتے ہیں، نہ کہ وہ کھیل جو جوا اور اندھی قسمت کا سہارا دیتا ہے۔ پاکستان کے بزنسز کو بھی چاہیے کہ وہ صرف کرکٹ کے پیچھے اپنی دولت نہ بہائیں، بلکہ ہاکی، فٹبال، ایتھلیٹکس، کشتی اور ان کھیلوں کو فروغ دیں جو جسم، دماغ اور کمیونٹی کو زندہ کرتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم برطانوی غلامی کی اس منحوس وراثت سے جان چھڑائیں، ورنہ ہم یونہی قسمت کو کوستے رہیں گے اور دنیا محنت سے جیتتی رہے گی۔
واپس کریں