میانوالی میں صحت عامہ کے ساتھ کھلواڑ اور صفر منصوبہ بندی
ساجد الرحمن
ڈی ایچ کیو ہسپتال کو مکمل طور پر مدر اینڈ چائلڈ ہسپتال میں ضم کرنے کا حالیہ فیصلہ جس کو بظاہر تو ایک "انتظامی کامیابی" دکھایا جا رہا ہے، مگر حقیقت میں یہ ایسا کارنامہ ہے جس پر عقل بھی سر کھجاتی ہے اور منطق بھی خاموش ہو جاتی ہے۔ مدر اینڈ چائلڈ ہسپتال کوئی خالی عمارت نہیں تھا جو کسی دن اچانک یاد آ گیا ہو، بلکہ یہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر سینٹر خاص طور پر زچگی، نوزائیدہ بچوں اور بچوں کے علاج کے لیے بنایا گیا تھا۔ یہاں علاج کروانے والوں میں ساٹھ سے ستر فیصد تعداد خواتین اور بچوں کی ہے، جبکہ اس ہسپتال کی مجموعی گنجائش بھی محض دو سو بیڈز تک محدود ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو عمارت ایک مخصوص مقصد کے لیے بڑے سلیقے سے کھڑی کی گئی ہو، اسے اچانک جنرل ہسپتال بنانے کی سوجھ کیسے آ گئی؟ بنی بنائی چیزوں کو اپنے ہی ہاتھوں سے اجاڑ دینا شاید کسی نئے انتظامی فلسفے کا نام ہے، مگر عام فہم عقل اسے سراسر نادانی ہی کہے گی۔ دوسری طرف ڈی ایچ کیو ہسپتال کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ برسوں سے یہ ہسپتال ناقص انتظام اور شدید بھیڑ کا شکار ہے۔ مریض سٹریچر پر، راہداریوں میں پڑے نظر آتے ہیں، وارڈز اپنی استعداد سے کہیں زیادہ بھرے ہوتے ہیں اور ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ پہلے ہی ہانپ رہا ہے۔ ایسے میں دو سو پچاس بیڈز کی کاغذی گنتی سن کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اعداد و شمار بھی حقیقت سے نظریں چرا رہے ہوں۔ اب اس ہجوم اور بدنظمی کا پورا بوجھ مدر اینڈ چائلڈ ہسپتال پر ڈال دینے کا مطلب یہی ہے کہ ایک مسئلہ حل کرنے کے شوق میں دو نئے مسئلے پیدا کر لیے جائیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں ڈی ایچ کیو ہسپتال کی دیکھ بھال اور مرمت پر تقریباً پچاس کروڑ روپے سے زائد خرچ کیے گئے، مگر اب اچانک معلوم ہوا کہ اس سب کے باوجود نہ کوئی واضح سمت تھی اور نہ کوئی طویل المدتی منصوبہ۔ اب شعبے اُٹھا کر دوسری عمارت میں منتقل کیے جا رہے ہیں اور قومی خزانے کی اس خطیر رقم کے انجام پر خاموشی طاری ہے۔ پرانی ڈی ایچ کیو عمارت کا مستقبل کیا ہو گا، اس سوال کا جواب بھی شاید کسی کو معلوم نہیں۔ یہ فیصلہ، چاہے اسے میڈیکل کالج کے قیام سے جوڑ کر پیش کیا جائے یا کسی اور خوش نما عنوان سے، اپنی اصل میں ایک غیر سوچا سمجھا قدم ہی دکھائی دیتا ہے، جس کا براہِ راست نقصان عوام کی صحت کو پہنچے گا۔ اگر واقعی توسیع یا بہتری مقصود ہے تو اس کا راستہ نئی عمارتیں، نئی سہولیات اور ٹھوس منصوبہ بندی ہے، نہ کہ ایک پہلے ہی رش زدہ ڈی ایچ کیو کو اٹھا کر دو سو بیڈز والے ایک مخصوص ہسپتال میں لا پٹکنا۔ ایسے انتظامی شارٹ کٹس کو اصلاح نہیں، بلکہ مریضوں کی جانوں کے ساتھ تجربہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ سول سوسائٹی اور مقامی میڈیا کی جانب سے اس فیصلے کے دور رس نتائج پر وہ سنجیدہ بحث دیکھنے میں نہیں آ رہی جس کی اس معاملے کو اشد ضرورت ہے۔ عوام کو یہ بات سمجھنی ہو گی کہ صرف سیاسی کریڈٹ، دعووں اور وعدوں کے عوض اگر صحت کے بنیادی ڈھانچے سے سمجھوتا کیا گیا تو اس کی قیمت پورا ضلع چکائے گا۔ آج کا یہ غیر منطقی اور عجلت میں کیا گیا فیصلہ، کل میانوالی کے صحت کے نظام کے لیے ایک مہنگا اور ناقابلِ تلافی نقصان ثابت ہو سکتا ہے۔
واپس کریں