دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
منی ڈیمز برسات کی برکتیں سمیٹنے کا واحد حل ‎
ساجد الرحمن
ساجد الرحمن
ہر سال مون سون کے موسم میں ضلع میانوالی کی عیسیٰ خیل رینج کی پہاڑیوں پر موسلا دھار بارش ہوتی ہے۔ یہ بارش کا پانی قدرتی پہاڑی نالوں کے ذریعے تیزی سے بہہ کر قریبی نشیبی علاقوں میں سیلاب لے آتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ وافر پانی آئندہ استعمال کے لیے محفوظ نہیں کیا جاتا بلکہ دریائے سندھ میں ضائع ہو جاتا ہے۔ دوسری جانب ونجاری، ملاخیل اور مَکڑ وال جیسے علاقے سال کے باقی حصے میں پانی کی قلت اور زیرِ زمین پانی کی سطح میں کمی کا شکار رہتے ہیں۔ پاکستان کبھی آبی وسائل سے مالا مال تھا مگر اب اسے شدید قلت کا سامنا ہے۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ اِن واٹر ریسورسز کے مطابق فی کس پانی کی دستیابی 1951ء میں 5,260 مکعب میٹر سے کم ہو کر آج صرف تقریباً 1,000 رہ گئی ہے۔ 2025ء تک یہ سطح 860 مکعب میٹر سے بھی نیچے جا سکتی ہے، جس سے پاکستان پانی کی شدید قلت والے ممالک میں شامل ہو جائے گا۔ یہ صورتِ حال زرعی پیداوار، خوراک کی فراہمی اور خصوصاً دیہی علاقوں میں لاکھوں لوگوں کے روزگار کے لیے خطرہ ہے۔ عیسیٰ خیل کا علاقہ اپنے قدرتی خدوخال کی وجہ سے بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بہترین ہے، مگر اس مقصد کے لیے کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔ ماہرین کے مطابق ان پہاڑی علاقوں میں چھوٹے ڈیم تعمیر کر کے بارش کے پانی کو جمع کیا جا سکتا ہے، سیلاب سے ہونے والے نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے اور زیرِ زمین پانی کی سطح کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ بڑے اور مہنگے منصوبوں کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں، چھوٹے ڈیم تیزی سے اور کم لاگت میں مقامی برادری کے تعاون سے تعمیر کیے جا سکتے ہیں۔ یہ علاقہ ایسی منصوبہ بندی کے لیے مثالی ہے۔ پاکستان میں چھوٹے ڈیموں کے مثبت نتائج پہلے ہی دیکھے جا چکے ہیں۔ پوٹھوہار کے علاقے میں 50 سے زائد چھوٹے ڈیموں نے نہری آبپاشی میں بہتری پیدا کی، فصلوں کی پیداوار میں 40 فیصد تک اضافہ کیا اور زیرِ زمین پانی کی سطح بلند کی۔ بلوچستان اور سندھ میں بھی ایسے منصوبوں نے بنجر زمین کو زرخیز کھیتوں میں بدل دیا ہے۔ پاکستان کی نیشنل واٹر پالیسی میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کو شامل کیا گیا ہے اور پنجاب کی سمال ڈیمز آرگنائزیشن نے پسماندہ علاقوں میں کئی ممکنہ مقامات کی نشاندہی بھی کی ہے، مگر پیش رفت سست روی کا شکار ہے۔ بھارت نے اس طریقہ کار کو پہلے ہی اپنا لیا ہے۔ راجستھان میں مقامی برادری کے بنائے گئے چھوٹے چیک ڈیمز نے چند سالوں میں زیرِ زمین پانی کی سطح کو دوگنا کر دیا اور علاقے کو بارش پر انحصار سے کافی حد تک آزاد کر دیا۔ محکمہ انہار اور وزارتِ آبی وسائل سے مطالبہ کر ہے کہ عیسیٰ خیل کی پہاڑیوں پر منی ڈیمز بنا کر مون سون کے بارشی رحمت کو دریا برد ہونے سے بچائیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے باعث بارش کے پیٹرن غیر یقینی ہو چکے ہیں، اس لیے پانی کا محتاط اور مؤثر استعمال پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ پہاڑی علاقوں جیسے عیسیٰ خیل میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کوئی آپشن نہیں بلکہ وقت کی ضرورت ہے۔
واپس کریں