ساجد الرحمن
بحرِ ہند کے بیچوں بیچ، انڈمان کے جزیرے پر واقع کالا پانی جیل برصغیر کی آزادی کی جدوجہد کا وہ سیاہ باب ہے جس کے صفحات خون، آنسو اور قربانی سے لبریز ہیں۔ 1896 میں تعمیر ہونے والی یہ سیلولر جیل 1906 میں مکمل ہوئی اور انگریزوں نے اسے اُن مجاہدینِ آزادی کے لیے مخصوص کیا جنہوں نے تاجِ برطانیہ کے خلاف بغاوت کی۔ یہ جیل اس لیے "کالا پانی" کہلائی کیونکہ یہاں بھیجے گئے قیدی سمندر پار اس مقام پر پہنچ جاتے جہاں سے واپسی ناممکن سمجھی جاتی تھی۔1857 کی جنگِ آزادی کے بعد ہزاروں مسلمان علما، سپاہی اور حریت پسند انگریزوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھنے لگے۔
ان میں کانپور کے مجاہد مولانا لیاقت علی، مولانا احمد اللہ شاہ مدنی اور برصغیر کے دیگر متعدد مسلمان رہنما شامل تھے جنہیں کالا پانی کے اندھیروں میں دھکیل دیا گیا۔ یہاں قیدیوں پر ایسے مظالم ڈھائے گئے جنہیں سن کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ دامودر ساورکر نے اپنی رہائی کے بعد لکھا کہ جب جیل کا دروازہ بند ہوا تو انہیں محسوس ہوا جیسے وہ موت کے منھ میں داخل ہو گئے ہیں۔ جیلر ڈیوڈ بیری خود کو "پورٹ بلیئر کا خدا" کہتا تھا اور قیدیوں کو روز نئے انداز میں اذیتیں دینے میں فخر محسوس کرتا تھا۔
تیل نکالنے، چکی پیسنے، پتھر توڑنے، دن رات زنجیروں میں جکڑے رہنے اور بھوک پیاس سے تڑپنے جیسی سزائیں معمول کا حصہ تھیں۔بنگال کے سشیل داس گپتا، اندو بھوشن رائے اور دیگر قیدیوں کی داستانیں ظلم کی انتہا بیان کرتی ہیں۔ گپتا کے بیٹے نے بتایا کہ اس کے والد روزانہ چھ گھنٹے کی مشقت کے بعد اپنے ہی خون میں نہائے ہوتے۔ اندو بھوشن رائے نے ظلم سے تنگ آ کر پھٹے ہوئے کُرتے سے خود کو پھانسی دے دی۔ قیدی جہنم جیسی مشقت میں پسینے اور آنسو بہا رہے ہوتے جبکہ انگریز افسر راس جزیرے پر ٹینس کورٹ، کلب ہاؤس اور سوئمنگ پول کے عیش و عشرت میں مصروف رہتے۔ ایک قیدی اُلاسکر دت پر اتنا تشدد کیا گیا کہ وہ پاگل ہو گیا اور چودہ سال تک پاگل خانے میں قید رہا۔ اُس کے والد کے خطوط کا جواب دینے کے بجائے انگریز حکام نے جھوٹا عذر پیش کیا کہ بیٹے کا پاگل پن ملیریا کے باعث ہے۔1930 کی دہائی میں قیدیوں نے ان مظالم کے خلاف بھوک ہڑتال شروع کی۔ مئی 1933 کی ہڑتال کے دوران بھگت سنگھ کے ساتھی مہاویر سنگھ، موہن کشور اور موہت موئترا زبردستی دودھ پلانے کی کوشش میں ہلاک ہو گئے۔ ان کی لاشیں پتھروں سے باندھ کر سمندر میں پھینک دی گئیں۔
بعد ازاں گاندھی اور ٹیگور کی مداخلت پر 1937-38 میں سیاسی قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع ہوا۔1942 میں جاپان نے انڈمان پر قبضہ کر لیا تو حالات مزید خوفناک ہو گئے۔ جاپانی افواج نے برطانوی حامی قیدیوں پر بے رحمی سے گولیاں برسائیں، سینکڑوں کو خندقوں میں دفن کر دیا، اور بھوک سے نڈھال قیدیوں کو سمندر میں کودنے پر مجبور کیا۔ 1945 میں جاپان کی شکست کے بعد برطانیہ نے دوبارہ کنٹرول حاصل کیا، مگر اس وقت تک ہزاروں ہندوستانی، جن میں مسلمان، سکھ اور ہندو سب شامل تھے، جان کی بازی ہار چکے تھے۔ریکارڈ کے مطابق 1860 سے لے کر 1945 تک تقریباً 80 ہزار قیدی کالا پانی بھیجے گئے۔
ان میں بڑی تعداد پنجاب، بنگال اور مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والے آزادی کے متوالوں کی تھی۔ مسلمان علما اور سپاہیوں نے یہاں ایسی قربانیاں دیں جنہیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کی بنیاد رکھی جس کا نتیجہ 1947 میں پاکستان کی صورت میں سامنے آیا۔کالا پانی جیل صرف بھارت نہیں بلکہ برصغیر کی اجتماعی یادگار ہے۔ پاکستان کے لیے یہ مقام اس لیے بھی تاریخی اہمیت رکھتا ہے کہ یہاں وہ مسلمان مجاہدین قید رہے جنہوں نے دین اور وطن دونوں کے لیے اپنی جوانیاں قربان کر دیں۔ 1957 میں جنگِ آزادی کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر شاعرِ انقلاب ساحر لدھیانوی نے بجا طور پر کہا تھا کہ “برطانیہ کو جنگِ آزادی کے قتل عام پر نہ سہی، مگر کالے پانی کے مظالم پر برصغیر کے لوگوں سے ضرور معافی مانگنی چاہیے۔
”کالا پانی جیل کی یہ دیواریں آج بھی گواہی دیتی ہیں کہ آزادی کا سورج ان ہی قیدیوں کے لہو سے طلوع ہوا جنہوں نے ظلم کی سلاخوں کے پیچھے ایمان، ہمت اور قربانی کی ایسی داستان رقم کی جسے وقت کبھی مٹا نہیں سکتا۔
واپس کریں