امام ربانی مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندی
ساجد الرحمن
ایک روز میں حضرت مجدد رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مزار مبارک پر حاضر ہوا۔ اس مزار مبارک کی مٹی کو یہ شرف حاصل ہے کہ آسمان کے نیچے اس جگہ نورانی تجلیوں کا ظہور ہوتا ہے۔ اس مٹی کا مقام و مرتبہ اتنا بلند ہے کہ اس کے ذروں کی چمک دمک کے سامنے ستارے بھی شرمندہ ہیں۔ اس کی آب و تاب کے سامنے سورج اور چاند بھی اپنا منہ چھپاتے نظر آتے ہیں۔ اس مٹی میں معرفت کے رازوں کو جاننے والا وہ بلند مرتبہ عارف کامل دفن ہے جس کی گردن جہانگیر جیسے عظیم الشان بادشاہ کے آگے بھی نہ جھکی اُس کے طرز عمل کی برکت سے خدا کے پاک بندوں کی محفل میں گرمی ، رونق اور چہل پہل ہے۔ یہ اُسی کا ولولہ انگیز کردار ہے جس کی پیروی کو مردان آزاد اپنے لیے سرمایہ افتخار جانتے ہیں۔وہ مبارک وجود ہندوستان میں ملت اسلامیہ کے سرمائے کا نگہبان تھا۔
وہی تھا جسے اللہ تعالی نے ملت اسلامیہ کی نگہبانی کے لیے چن لیا تھا۔ اسی لیے اللہ نے اُسے بروقت اس خطرے سے آگاہ کر دیا جو ہندوستان میں اسلام کو لاحق تھا اور پھر اس مبارک وجود نے اپنی ساری زندگی ملت اسلامیہ کے سرمائے کی حفاظت کے لیے وقف کر دی۔حضرت مجدد رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بادشاہ، حکمران طبقے اور درباریوں کی روش تیز زمانے کے حالات و رجحانات کو دیکھتے ہوئے بر وقت اندازہ کر لیا تھا کہ شاہی دربار سے "دین الہی" کے نام پر جو فتنہ اٹھایا گیا ہے، اگر اس کا سد باب نہ کیا گیا اور تجدید دین کے لیے بھر پور کوشش نہ کی گئیں تو اسلام اس سرزمین پر اپنی حقیقی شان کے ساتھ قائم نہ رہ سکے گا اور پھر انھوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ تجدید دین کی سرگرم کوششوں کے لیے وقف کر دیا۔ میں نے مزار مبارک پر حاضر ہو کر حضرت مجدد رحمۃ اللّٰہ علیہ کی خدمت میں عرض کیا۔ "اے حضرت ! اپنے فیض سے مجھے بھی فقر کی دولت عطا فرمائیے۔ میری آنکھیں بینا تو ہیں لیکن بیدار نہیں۔
ان میں دیکھنے کا جوہر تو موجود ہے لیکن ان میں حقیقی بیداری پیدا نہیں ہوئی جس سے وہ نیک اور بد میں امتیاز کر سکیں ، اچھائی اور برائی کا فرق جان سکیں ، کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرسکیں"۔حضرت مجدد رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مزار مبارک سے یہ آواز میرے کانوں میں آئی ۔ "پنجاب کے لیے فقر کا سلسلہ بند ہو گیا ہے۔ کیوں کہ اہل نظر پنجاب کی سرزمین سے بیزار ہو چکے ہیں۔ یاد رکھو! وہ خطہ کبھی بھی اہل معرفت کا ٹھکانا نہیں ہو سکتا اور نہ اللہ والے لوگ وہاں رہ سکتے ہیں جہاں درویشی کی کلاہ سے دستار کا طُرّہ پیدا ہو، جہاں فقیری کے نام پر امیری اور دنیا داری کا طریقہ اختیار کر لیا جائے ۔
جب تک فقیری کلاہ قائم تھی ، درویشی کے سلسلے میں کوئی فرق نہ آیا، ان لوگوں کے دلوں میں خدا کی محبت موج زن تھی اور ان میں کلمہ حق کہنے کا سچا جوش، جذ بہ اور ولولہ موجود تھا۔ جب فقر اور درویشی کی کلاہ اتر گئی اور اس کی جگہ دستار کا طرہ بلند ہو گیا تو خدا کی محبت کا جذبہ دلوں سے نکل گیا اور اس کی جگہ حکومت کی خدمت کا نشہ دل و دماغ پر چھا گیا۔ اب ان لوگوں کا کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ حکومت کے مقاصد پورے کریں اور اس طرح اپنے لیے دولت کے انبار جمع کرتے جائیں"۔ علامہ اقبال نے اس حقیقت کو حضرت مجدد رحمۃ اللّٰہ علیہ کی زبانی بیان فرمایا ہے ۔ حضرت مجدد جن کا نام نامی شیخ احمد سرہندی اور لقب مجددالف ثانی ہے، ہندوستان میں اسلامی فقر و درویشی کے بہت بڑے علم بردار تھے۔ اکبر بادشاہ نے ابوالفضل اور فیضی جیسے درباری عالموں کے مشورے سے جو دین الہی ایجاد کیا تھا، اس کے خلاف سب سے پہلے آواز اٹھانے والے یہی حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ تھے۔ شہنشاہ جہانگیر کے دور میں کئی خوشامدی درباریوں نے حضرت مجدد رحمۃ اللّٰہ علیہ کے خلاف جہانگیر کے کان بھرے کیوں کہ شاہی دربار کے کئی اکابر اور مہابت خان جیسے فوج کے بڑے بڑے سالار حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مرید تھے۔ خوشامدی درباریوں کے بہکانے میں آکر شہنشاہ جہانگیر نے اُنھیں دربار میں طلب کیا تو حضرت مجدد رحمۃ اللّٰہ علیہ نے "دین الہی" کے مطابق روش اختیار کرنے کی بجائے اسلامی روایت کی پیروی کی۔
انھوں نے نہ تو بادشاہ کو سجدہ کیا اور نہ غیر مسنون طریقے کے مطابق سلام کیا۔ حضرت مجدد رحمۃ اللّٰہ علیہ کی یہ روش شہنشاہ جہانگیر کو ناگوار گزری اور اُس نے اُنھیں گوالیار کے قلعے میں نظر بند کر دینے کا حکم دے دیا۔ مہابت خان کو اپنے مرشد کی گرفتاری کی خبر ملی تو اُس نے جہانگیر کے خلاف بغاوت کردی اور شہنشاہ جہانگیر کو جہلم کے قریب گرفتار کر لیا۔ جب کہ وہ کشمیر کی طرف جا رہا تھا۔ حضرت مجدد رحمۃ اللّٰہ علیہ کو اس کی اطلاع ملی تو انھوں نے فورا مہابت خان کو حکم دیا کہ وہ بادشاہ کو رہا کر دے۔ رہائی کے بعد خوشامدی درباریوں کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا پردہ چاک ہوا تو شہنشاہ جہانگیر نے حضرت مجدد رحمۃ اللّٰہ علیہ کورہا کر دیا اور ان کی خدمت میں نذرانہ پیش کرنے کے علاوہ ایک مدت تک ساتھ رکھا بلکہ ایک مرتبہ کشمیر جاتے ہوئے حضرت مجدد رحمۃ اللّٰہ علیہ کی دعوت بھی قبول کی ۔بہر حال یہ حضرت مجدد رحمۃ اللّٰہ علیہ ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ جہانگیر نے شاہی دربار میں تعظیمی سجدے کا طریقہ موقوف کیا اور اس طرح اکبر کے اٹھائے ہوئے "دین الہی" کا فتنہ اپنی موت آپ مر گیا۔
پنجاب کے پیرزادوں کو ان کی غلط روش سے آگاہ کرنے کا کام علامہ اقبال نے حضرت مجدد رحمۃ اللّٰہ علیہ کی زبان فیض ترجمان سے لیا ہے۔ اُن کو ان کی غلطیوں کی طرف متوجہ کرنے والے حضرت مجدد رحمۃ اللّٰہ علیہ ہی موزوں ترین شخصیت ہو سکتے تھے کیوں کہ حضرت مجدد رحمۃ اللّٰہ علیہ ہندوستان میں اسلامی فقر کے بہت بڑے علم بردار تھے۔ نظم میں علامہ اقبال حضرت مجدد رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مزار مبارک پر حاضر ہو کر فقر کی دولت عطا کیے جانے کی درخواست کرتے ہیں اور جواب میں حضرت مجدد رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مزار سے آواز آتی ہے کہ اللہ والے پنجاب کی سرزمین سے بیزارہو چکے ہیں کیوں کہ یہاں کے پیر زادے فقیری اور درویشی کی گدیوں کے مالک بن کر امیری کے درجے پر پہنچے لیکن انھوں نے دین کی خدمت چھوڑ کر دنیا داری کا طریقہ اختیار کر لیا، انھیں دولت اور عزت اپنے بزرگوں کی وجہ سے ملی جو اونچے درجے کے درویش تھے لیکن اس دولت اور عزت کو اُنھوں نے اللہ کے بندوں کی بھلائی کی بجائے اپنی ذاتی اغراض کے لیے استعمال کیا اور اب کیفیت یہ ہے کہ ان کے دل سے خدا کی محبت تو نکل گئی ہے لیکن حکومت کی خدمت کا نشہ اُن کے دل و دماغ پر چھایا ہوا ہے۔
واپس کریں