دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
استاد جی! یہ سب آپ کا ہی ویژن ہے ‎
ساجد الرحمن
ساجد الرحمن
حال ہی میں یہ مشاہدہ سامنے آیا کہ میانوالی میں جیسے ہی کسی ترقیاتی منصوبے کی خبر سامنے آتی ہے، سوشل میڈیا پر حکمران سیاسی جماعت کے عہدیداروں میں کریڈٹ لینے کی دوڑ شروع ہو جاتی ہے۔ کوئی پرنٹ میڈیا میں اپنی تصاویر کے ساتھ خبریں لگواتا ہے، تو کوئی سوشل میڈیا پر "شکریہ" کی پوسٹیں شیئر کروا رہا ہوتا ہے، گویا ہر کوئی یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ یہ سب کچھ اسی کی کاوشوں کا ثمر ہے۔
ایسے میں احمد ندیم قاسمی کا افسانہ "سفارش" ذہن میں تازہ ہو جاتا ہے، جو اُن کی کتاب "کپاس کے پھول" میں شامل ہے۔ افسانے میں ایک کوچوان کا بیٹا، فیکا، اپنے نابینا باپ کے علاج کے لیے ایک "صاحب" سے بار بار سفارش کی التجا کرتا ہے۔ وہ عاجزی سے کہتا ہے کہ "بس کسی ڈاکٹر سے کہہ دیجیے کہ ایک بار میرے باپ کی آنکھ دیکھ لے۔" مگر وہ صاحب ہر بار جھوٹے دلاسوں، فریب دہ وعدوں اور ٹال مٹول سے کام لیتا ہے۔
آخر کار، اللہ کا کوئی اور نیک بندہ وسیلہ بنتا ہے، اور فیکے کے باپ کا علاج ہو جاتا ہے۔ لیکن فیکا، نادانستہ طور پر، انہی "صاحب" کا شکریہ ادا کرتا ہے، جن کا اس کام سے دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا۔ اور وہ صاحب، بجائے شرمندگی کے، بڑی ڈھٹائی سے کہتے ہیں: "کوئی بات نہیں فیکے، کوئی بات نہیں..."
آج کی سیاست میں بھی یہی کچھ دیکھنے کو مل رہا ہےجہاں ذاتی تشہیر اور سبقت کی خواہش اجتماعی مفاد پر غالب آ چکی ہے۔
مزید افسوسناک پہلو یہ ہے کہ سیاسی رہنماؤں کے ساتھ وابستہ کچھ سرگرم حامی اور حواری اپنی غیرمتوازن تشہیری مہم میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں رہتا کہ انفرادی شخصیت پرستی اور ضرورت سے زیادہ پروجیکشن، براہِ راست اپنی ہی جماعت کے نظریہ اور اجتماعی ساکھ (اگر ہے) کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ یوں، جو کام عوامی بھلائی کے لیے ہونا چاہیے، وہ ذاتی تشہیر اور باہمی مسابقت کی نذر ہو کر اپنی اصل افادیت کھو دیتا ہے۔
بہتر یہی ہو گا کہ انفرادی بیانات، متضاد خبروں اور سوشل میڈیا پر برتری کی اس دوڑ سے اجتناب کرتے ہوئے، تمام عہدیداران مل بیٹھ کر ایک متفقہ اعلامیہ یا مشترکہ پریس کانفرنس کے ذریعے اپنی پارٹی کا موقف پیش کریں، تاکہ اجتماعی کریڈٹ سے تمام ٹکٹ ہولڈرز کو فائدہ پہنچے۔ اس طرزِ عمل سے نہ صرف سیاست میں وقار، نظم اور شائستگی واپس آئے گی بلکہ عوام کو بھی روز بروز بڑھتی ہوئی نظریاتی تقسیم، فروعی اختلافات اور سوشل میڈیا پر ہونے والی فضول تکرار سے نجات ملے گی جو ایک سنجیدہ جمہوری معاشرے کے لیے کسی طور موزوں نہیں۔
واپس کریں