عصمت اللہ نیازی
جب ہم پرائمری سکول میں پڑھتے تھے تو اُس وقت سرکاری پرائمری سکولوں سے ساتھ اکثر ہائی سکولوں کی بھی چار دیواری نہ ہوتی تھی اور ہر سکول کی عمارت کے سامنے ایک میدان ہوتا جہاں بیٹھ کر ہم تفریح کے بعد "ٹوک ویں" (پہاڑے) یاد کرتے اور پھر چُھٹی کے بعد انہیں سکولوں میں زیر تعلیم بچے گھر سے کھانا کھانے کے بعد پھر واپس آ جاتے اور سکول کے گراؤنڈ میں بھاگ دوڑ والا کوئی نہ کوئی کھیل شروع کر دیتے ۔ اس کے ساتھ ہفتہ وار چھٹی جمعہ کو ہونے کی وجہ سے جمعرات کے دن آخری پیریڈ پڑھائی کی بجائی "بزمِ ادب" کا ہوتا جس میں تعلیمی نصاب سے ہٹ کر شاعری ، گانے یا پھر فنون لطیفہ کی کوئی بھی تعلیم دی جاتی۔ یہ اتنا دلچسپ پیریڈ ہوتا کہ بچے پورا ہفتہ اس کا انتظار شوق سے کرتے۔ تعلیمی اداروں میں اس قسم کی سرگرمیوں سے تیار ہونے والی نئی نسل کے ذہن کی مثبت سوچ کی آبیاری ہوتی۔ پھر وقت نے کروٹ لی اور جدید ہونے کی دّھن میں پوری قوم سے سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت اخلاقیات ، روایات ، اچھائی ، جسمانی اور ذہنی صحت سمیت تمام مثبت چیزیں چھین لی گئیں اور اُس کی جگہ جذباتیت ، گالم گلوج ، فرقہ واریت اور مذہبی جنونیت دے دی گئی۔ نئی نسل کو ذہنی طور پر پست کرنے کیلئے بزم ادب جیسی مثبت سرگرمیاں چھین لی گئیں بلکہ سرکاری تعلیمی اداروں میں موجود کے گرد چار دیواری تعمیر کر کے گھاس کے پلاٹ اور پودے لگا کر چھٹی کے بعد سکولوں میں داخل ہونے پر پابندی لگا کر دروازے پر تالے لگا دیئے گئے جس سے ضلع بھر کے بچے کھیلنے کی سہولت سے محروم ہو گئے کیونکہ ہر علاقہ میں کھیلوں کے سرکاری میدان نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں بچوں کے کھیلنے کا ذمہ انہی سکولوں کے میدانوں نے اُٹھایا ہوا تھا۔ اب آپ عیسیٰ خیل ، کمرمشانی ، کالاباغ سمیت ضلع بھر کے چھوٹے بڑے تعلیمی اداروں میں چھٹی کے بعد جا کر دیکھیں تو سب کے دروازوں پر موٹا سا تالا ہماری اخلاقی پستی کا مُنہ چُڑا رہا ہوتا ہے جس کی وجہ سے نئی نسل جسمانی کھیلوں کی بجائے موبائل فون پر " پب جی" دوسری ڈیجیٹل کھیلوں پر لگ چکی ہے۔ جبکہ اگر پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں کھیلوں کی ان سہولیات کی بات کریں تو وہاں پر تو ایسی سہولت کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا کیونکہ ایک طرف جہاں یہ پرائیویٹ سکول تین یا پھر پانچ مرلہ کی عمارات میں چل رہے ہیں وہاں اکثر تو کمرشل مارکیٹوں کی بغیر دروازوں کے دوکانات میں تعلیم سے بچوں کو آراستہ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے بچوں کو کھیل کی سہولت تو کُجا اِن مرغیوں کے ڈربوں میں کُھل کر بیٹھنے کی سہولت بھی موجود نہیں حالانکہ ہر پرائیویٹ سکول کی چند سال بعد رجسٹریشن کی تجدید کے وقت محکمہ تعلیم سکول میں کھیل کا میدان اور لیبارٹری سمیت کئی سہولیات فزیکل چیک کرتا ہے لیکن افسوس کہ دفتر میں بیٹھ کر مٹھائی کے ڈبہ کے عوض رجسٹریشن سرٹیفکیٹ جاری کر دیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان کا کہنا ہے کہ ہم پھر بھی ان مشکل حالات میں بچوں کو تعلیم تو فراہم کر رہے ہیں تو مجھے اس جواب پر ایک واقعہ یاد آ گیا ہے کہ ایک مرتبہ ایک ڈپٹی کمشنر کے ساتھ ملاقات میں میں نے اُسے شکایت لگائی کہ ضلع میں عطائی ڈاکٹروں کی بھرمار ہو گئی ہے لہٰذا مہربانی فرما کر اِن کو لگام ڈالنے کی کوشش کی جائے تو اس نے کہا نیازی صاحب شکر کرو یہ عطائی ڈاکٹر موجود ہیں ورنہ دُور دراز علاقوں میں بیمار کا علاج کون کرتا ؟ یعنی اب منشیات فروش بھی یہ دلیل پیش کر سکتا ہے کہ ہم اگر منشیات فروش نہ کریں تو علاقہ کے سارے پوڈری یہ سہولت کہاں سے حاصل کریں گے۔ بہرحال میری تو ڈپٹی کمشنر میانوالی اور محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام سمیت مقامی سیاسی نمائندوں سے بھی درخواست ہے کہ وہ چُھٹی کے بعد تعلیمی اداروں کے گیٹ پر لگے تالوں کو کھلوا کر نہ صرف بچوں کو کھیلنے کی سہولت فراہم کریں بلکہ شام سے قبل خواتین کو ان تعلیمی اداروں میں واک کی سہولت بھی فراہم کی جائے کیونکہ خواتین بھی انسان ہیں اور انکی صحت کا خیال رکھنا بھی ہماری اولین ذمہ داری ہے۔ وزیر اعلی پنجاب محترمہ مریم نواز کے والد محترم نواز شریف نے 2013 کے الیکشن کی مہم کے کمرمشانی جلسہ میں ضلع میانوالی میں سولہ اسٹیڈیم تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا جو دس سال گزرنے کے باوجود فی الحال ایفا نہیں ہوا ،سیاسی ابھی تک ضلع میانوالی میں وہ سولہ سٹیڈیم مکمل نہیں ہوا لہٰذا مریم نواز صاحبہ تعلیمی اداروں میں کھیلوں کی سہولیات فراہم کر کے ہم جیسی پسماندہ عوام پر احسان کریں
واپس کریں