دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ایک عہد جو تمام ہوا
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
یہ آج سے تقریباً 26 سال پہلے کی بات ہے کہ کمرمشانی سے پی ٹی آئی کے بانی رکن محمد خان ننزائی جو کہ آج کل پاکستان تحریک انصاف کی وجہ سے سرگودھا جیل میں ہیں محلہ تانی خیل مین روڈ پر ان کا ایک کریانہ کا چھوٹا سا کھوکھا ہوا کرتا تھا۔ میں بھی اکثر وہاں بیٹھا کرتا۔ ایک سانولے رنگ کا شخص جو ہفتہ میں تقریباً ایک یا دو مرتبہ دن گیارہ بارہ بجے شدید گرمی میں پسینہ سے شرابور کمرمشانی شہر کی طرف سے پیدل آتا اور محمد خان کے ساتھ بیٹھ جاتا۔ محمد خان ننزائی اسے اپنی دوکان میں پڑے ڈیپ فریزر سے ایک گلاس پانی پلاتا اور کچھ دور واقع ہوٹل سے ایک کپ چائے منگوا لیتا اسی دوران دونوں آپس میں سر جوڑ کر باتیں شروع کر دیتے اور تقریباً ایک گھنٹہ کی گفت و شنید کے بعد محمد خان عیسیٰ خیل کی طرف سے آنے والی مسافر کوچ روکتا اور اس شخص کو اس میں بٹھا کر رخصت کر دیتا۔ میں چونکہ وہاں ہی بیٹھا ہوتا تو کبھی کبھار میرا بھی اس سانولے شخص سے حال احوال پوچھنا ہو جاتا۔ نہ میں نے کبھی محمد خان سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے اور نہ اُس نے بتانے کی ضرورت محسوس کی کیونکہ میں شادی خیل گروپ کا ورکر تھا اور پی ٹی آئی کا سخت خلاف تھا۔ لیکن وہ نامعلوم شخص جب بھی آتا ایسے لگتا جیسے بہت دور سے پیدل چل کر یا بہت محنت کر کے آ رہا ہے۔ اسی طرح ماہ و سال گزرتے گئے اور شاید 2012 میں تقریباً پندرہ سال بعد ایک دوست کے ساتھ میانوالی جانا ہوا تو اس نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف سیکرٹریٹ میں میں نے ایک بندے سے ملنا ہے پھر واپس چلتے ہیں۔ اُس دن پاکستان تحریک انصاف سیکرٹریٹ میانوالی میں کوئی فنکشن تھا اور جب ہم وہاں پہنچے تو کافی رش تھا۔ میں نے دیکھا تو اندر وہی شخص جو محمد خان کے پاس آتا تھا وہ تقریر کر رہا تھا۔ تقریر سے فارغ ہوا تو میرے دوست نے اس سے چند منٹ کی ملاقات کی۔ اُس نے مجھ سے بھی ہاتھ ملایا حال احوال معلوم کیا اور ہم واپس نکل آئے۔ واپسی پر میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ یہ شخص تو اکثر کمرمشانی میں محمد خان ننزائی کے پاس آتا ہے، یہ کون ہے ؟ اور اس کا نام کیا ہے ؟ تو میرے دوست نے جواب دیا کہ یہ شخص سلیم گل خان ہے اور پاکستان تحریک انصاف میانوالی کا راہنما ہے۔ یہ جواب سُن کر میرے دماغ یں اُس شخص کی کئی سالوں کی ریاضت ایک فلم کی طرح گھوم گئی اور گرمی ہو یا سردی پاکستان تحریک انصاف کے لئے اس کی محنت اور اس کا کام میری آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ یہ سلیم گل خان سے میرا پہلا باقاعدہ ملنا تھا۔ اس کے بعد تو سلیم گل کے ساتھ بہت قریبی روابط بھی رہے، اُس سے واسطہ بھی پڑا۔ لیکن پرسوں جب سلیم گل کی اچانک موت کی خبر ملی تو وہی ماضی کی پرانی فلم ایک مرتبہ پھر میرے دماغ میں گھوم گئی۔ سلیم گل خان واقعی ایک بہت محنتی اور ملنسار انسان تھا جس نے اپنی پوری زندگی پاکستان تحریک انصاف کے لئے وقف کر دی۔ اُس شخص کو ضلع بھر میں موجود ایک ایک ورکر کا نہ صرف علم تھا بلکہ وہ ہر ورکر کے ساتھ رابطہ میں بھی رہتا ۔ جب بھی کسی ورکر پر کوئی مصیبت آئی یا اس کی کوئی خوشی ، غمی ہوتی تو یہ شخص عیسیٰ خیل، سلطان خیل ، تبی سر سے لے کر چکڑالہ اور پپلاں کے مضافات تک ہر کسی کے پاس کم وسائل کے باوجود پہنچتا چاہے وہ پیدل ہو ، موٹر سائیکل پر ہو یا پھر کوچ میں سفر کرے، اُس کا کام تھا ہر کسی کے پاس پہنچنا ۔ اسی طرح جب عمران خان سیاست میں نئے وارد ہوئے اور ضلع میانوالی کے اکثر لوگ ان پر ہنستے تھے کہ پورے ضلع میں صرف اس کے ساتھ ضیاء الله خان پائی خیل اور سلیم گل سمیت چند ہی افراد تھے۔ سلیم گل پر میانوالی سے تعلق رکھنے والے کئی پارٹی ورکرز نے کرپشن کے الزامات بھی لگائے، اُن کے خلاف عمران خان کے کان بھی بھرے گئے جس کی وجہ سے عمران خان بھی انھیں اچھا نہیں سمجھتے تھے لیکن وقت گواہ ہے کہ سلیم گل خان روز اول سے لے کر آخری دن تک پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے حالانکہ پارٹی نے حسب روایت ان کے ساتھ کئی زیادتیاں کیں لیکن انھوں نے یہ سب کچھ خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔ پاکستان تحریک انصاف ضلع میانوالی میں کئی لوگ آئے اور چلے گئے نئے آنے والوں کو بڑے بڑے عہدے اور ٹکٹ بھی ملے لیکن سلیم گل نے ہمیشہ پارٹی قیادت کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ہر شخص کے ساتھ مل کر پارٹی کے لئے دن رات کام کیا۔ عطاء اللہ خان شادی خیل کے ساتھ بھی وہ پارٹی کی وجہ سے چلے، جب پارٹی کی حکومت آئی تو ضلع میانوالی پر ایک مسلط کئے گئے کوآرڈینیٹر احمد خان نیازی کے ساتھ بھی پورے مخلص طریقہ سے رہے۔ اسی طرح امجد خان، ببلی خان، سبطین خان سمیت سب ممبران اسمبلی کا کام وہ اپنا ذاتی کام سمجھ کر کرتے۔ سال ہا سال سے جب بھی وہ ملتے ضلع کے مسائل کی فائلوں کا پلندہ ان کے پاس ہوتا۔ 28 سال میں نہ تو انھیں کسی ٹکٹ کی پیشکش کی گئی اور نہ ہی انھیں کوئی اہم عہدہ دیا گیا۔ کہتے ہیں کہ سیاست بڑی بے رحم چیز ہے جس میں سیاسی پارٹیاں اپنے ورکرز کو استعمال کر کے اپنے مفادات حاصل کرتی ہیں، سلیم گل خان کی طرح کے عام ورکرز صرف قربانیوں کیلئے سیاسی پارٹیوں میں ہوتے ہیں جبکہ اصل مفاد تو امیر لوگ اٹھاتے ہیں جو پارٹی میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ لیکن جب بھی پارٹی کے ورکرز پر کوئی مصیبت آتی ہے تو انھیں اکیلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ 9 مئی کے واقعہ میں سلیم گل پر جب ایف آئی آر ہوئی تو پارٹی کے کرتا دھرتا لوگوں نے آٹھ ماہ تک ان کا حال احوال تک نہ پوچھا۔ نہ کوئی وکیل کا بندوست کیا گیا، نہ ان کے بچوں اور خاندان کی روزی روٹی کا پوچھا گیا۔ اور جب سلیم گل نے خرم حمید روکھڑی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو گھر میں بیٹھ کر سوشل میڈیا پر بنے دانشوروں نے اسے بہت برا بھلا بھی کہا اور گالیاں بھی دیں لیکن وہ جب خرم حمید روکھڑی کے ساتھ بھی کھڑے ہوئے تو پورے خلوص کے ساتھ دن رات ایک کر کے اُن کیلئے اپنی زندگ کی آخری سانس تک ان کے ساتھ کھڑے رہے۔ میری نظر یں سلیم گل خان ضلع میانوالی کے لئے پاکستان تحریک انصاف کا نہ صرف ایک اثاثہ تھے بلکہ ایک عہد تھے جو انکی وفات کے ساتھ ہی تمام ہو گیا
ہماری دعا ہے کہ الله پاک سلیم گل خان کی بخشش کرے اور انکی اگلی منزلیں آسان فرمائے (آمین)
واپس کریں