دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
فِر کہندے نے بُوٹا گالاں کڈدائے
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
کسی گاؤں پر ایک چوہدری کی حکمرانی تھی چوہدری بڑا عیاش تھا جس کی وجہ سے اُس کے اخراجات پورے نہ ہوتے تو ایک دن آس نے اپنے ایک مشیر اعلیٰ سے مشورہ کیا کہ رقم کا کہاں سے بندوبست کریں جس کے جواب میں مشیر صاحب نے مشورہ دیا کہ رعایا کے گھروں میں ہر چولھے پر ٹیکس لگا دیتے ہیں اور جو رقم حاصل ہو گی اُس کو آپ اپنی عیاشیوں کے بجٹ میں شامل کر لینا یہ سُن کر چوہدری صاحب نے مشیر سے پوچھا کہ کہیں رعایا احتجاج شروع نہ کر دے۔ مشیر نے کہا کہ چوہدری صاحب ساری رعایا لگتی تو انتہا کی بے حِس اور غیرت سے عاری ہے آپ ایک مرتبہ ٹیکس لگا کر چیک کر لیں اگر احتجاج شروع ہوا تو ٹیکس واپس لے لیں گے۔ چوہدری کو یہ بات پسند آ گئی اور اُس نے بسم الله پڑھ کر ہر چولھے پر ٹیکس کا آغاز کر دیا اور عوام نے پیسے جمع کرانے شروع کر دئیے۔
ایک ماہ بعد چوہدری نے مشیر سے رپورٹ طلب کی کہ عوام کا کیا ردِعمل ہے مشیر نے انتظامیہ کے لوگوں سے پوچھا اور بادشاہ سلامت کو رپورٹ پیش کی کہ سب لوگ آرام سے ٹیکس ادا کر رہے ہیں اور عوام نے چُوں بھی نہیں کی، یہ دیکھتے ہوئے کچھ دن بعد چوہدری صاحب نے گاؤں سے گزرنے والی سڑک پر بھی ٹیکس لگا دیا اور ہر آنے جانے والے سے رقم کی وصولی شروع ہو گئی۔ لوگ آتے جاتے اور چوہدری کی طرف سے سڑک کے کنارے رکھے ڈبہ میں رقم ڈال دیتے۔
جب عوام نے یہ ٹیکس بھی آرام سے دینا شروع کر دیا تو چوہدری صاحب نے گاؤں کے اکلوتے پُل پر بھی اپنے دو آدمی کھڑے کر دئیے اور کہا کہ پّل کراس کرنے والے ہر فرد سے دس روپے لئے جائیں۔ اہل علاقہ نے پھر بھی چُوں بھی نہ کی اور پیسے دینے شروع کر دئیے تو چوہدری نے ایک ہفتہ بعد حکم دیا کہ پُل سے گزرنے والے ہر شخص سے نہ صرف دس روپے لئے جائیں بلکہ اُس کے سر پر ایک جُوتا بھی مارا جائے اور اس کام کیلئے اُس نے پُل کے دونوں سروں پر اپنے دو آدمی کھڑے کر دیے جو ہر آنے جانے والے سے دس روپے بھی وصول کرتے اور اُس کے سر پر ایک جوتا بھی مارتے۔ اس طرح دوپہر کے وقت رش کی وجہ سے کافی لمبی لائن لگ جاتی۔ یہ دیکھ کر اہل علاقہ نے ایک ہفتہ بعد احتجاج شروع کر دیا۔ یہ بات جب چوہدری تک پہنچی تو اُس نے مشیر کو اہل علاقہ کے پاس بھیجا کہ اُن کے ساتھ گفت و شنید کر کے معاملہ نپٹائے۔
مشیر دوسرے دن پُل پر احتجاج کرنے والوں کے پاس پہنچ گیا اور اُن سے مطالبہ پوچھا تو انھوں نے اپیل کی کہ چوہدری صاحب سے کہیں کہ پُل پر جوتے مارنے والوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے کیونکہ سر پر جوتے کھاتے ہوئے وہ کافی لیٹ ہو جاتے ہیں۔ ہماری بحثیت قوم بھی صورتحال کچھ چوہدری صاحب کی رعایا جیسی ہے کہ حکومت نے پہلے بجلی کی قیمت میں اضافہ کیا اور جو یونٹ پہلے پانچ روپے کا تھا آس کو چالیس روپے تک پہنچا دیا۔
پھر اُس کے بعد فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ، ایف سی سرچاج، کوارٹر ٹیرف ایڈجسٹمنٹ ، الیکٹری سٹی ڈیوٹی، ٹی وی فیس، جنرل سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس ، ایکسٹرا ٹیکس ، مزید ٹیکس ، ریٹیلر ٹیکس ، ایف پی اے پر جنرل سیلز ٹیکس، ایف پی اے پر ایکسٹرا ڈیوٹی، ایف پی اے پر مزید ٹیکس ، ایف پی اے پر سیلز ٹیکس ، ایف پی اے پر انکم ٹیکس، ایف پی اے پر ایکسٹرا ٹیکس لگا دیا گیا لیکن جب پھر بھی غیرت سے عاری قوم کے سر پر جُوں بھی نہ رینگی تو اب پیش خدمت ہیں اقساط جو کہ سر پر جُوتے مارنے کے برابر ہیں کیونکہ آپ نے اپنے سارے بِل بھی جمع کروائے ہوئے ہیں لیکن ہر ماہ ساتھ قسط بھی آ رہی ہے۔ دوسری طرف طاقتور ادارے ڈنڈے کے زور پر اس سے بھی عوام دوست حکومت بنانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں تاکہ غریب عوام کو اس سے بھی زیادہ ریلیف دیا جا سکے پھر آپ کہتے ہیں "بُوٹا گالاں کڈدائے"
واپس کریں