دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
"سیاسی گُھمر گھیریاں/فاتحہ خوانیاں"
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
کسی گذشتہ الیکشن میں جب الیکشن سے چند دن باقی تھے اور سیاسی شعبدہ بازوں کا عوام کی شادیوں اور فوتگیوں میں شرکت عروج پر تھی تو ایک سیاسی شعبدہ باز اپنے چند حواریوں کے ساتھ گاؤں سے گزر رہا تھا کہ اچانک اُن کی نظر ایک مجمع پر پڑی جو زمین پر چٹائیاں بچھائے بیٹھے ہوئے تھے یہ دیکھتے ہوئے سیاسی شعبدہ باز کے ساتھ بیٹھے حواری فورآ سمجھ گئے کہ کوئی فوتگی ہو گئی ہے لہٰذا انھوں نے ملک صاحب کو کہا کہ چلیں ان کی فاتحہ پڑھ کر یہ ثواب دارین بھی حاصل کر لیں اس طرح وہ اُس فوتگی میں جا گُھسے، فاتحہ پڑھنے کے بعد ملک صاحب نے خاندان سے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ الله مغفرت کرے مرنے والے کے ساتھ میرے بہت اچھے تعلقات تھے اور اُسکی اور میری اکثر سرِ راہ ملاقات ہو جاتی۔ یہ بات سنتے ہی خاندان کے لوگ فورآ غصہ سے آگ بگولہ ہو گئے اور ڈنڈے سوٹے نکال لئے کیونکہ اُنکی بھابھی فوت ہوئی تھیں۔ آجکل کچھ ایسی ہی صورتحال ہمارے ہاں بھی پیدا ہونے کا شدید خطرہ ہے کیونکہ ہمارے سیاسی شعبدہ باز بھی فوتگیوں کی باقاعدہ تاڑ میں رہتے ہیں اور آتے جاتے راستہ میں ارد گرد نظر رکھتے ہیں کہ کہیں رش ہو وہ وہ بھی ثواب دارین حاصل کر لیں۔ فاتحہ خوانی دراصل ہمارے معاشرہ میں کسی بھی شخص کی طرف سے متوفی کے خاندان والوں کے ساتھ ہمدردی اور افسوس کا عمل ہے جس میں ہم کسی اپنے کی وفات پر اُس کے گھر جا کر اس کے خاندان کے ساتھ دلی رنج اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں جو ہمیں واقعی دل میں محسوس ہوتا ہے اور جب ہم فاتحہ خوانی میں جا کر بیٹھتے ہیں تو ہماری حرکات و سکنات سے بھی محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے دل میں مرنے والے کی موت اور اُس کے لواحقین کے نقصان کا واقعی دکھ ہے اور ہمارے وہاں جانے سے غم کی اُس گھڑی میں لواحقین کو کچھ سہارا اور حوصلہ مل جاتا ہے لیکن ہمارے شعبدہ باز بھائی تو سو فیصد کمرشل مفاد کے تحت ہماری فاتحہ خوانیوں پر تشریف لاتے ہیں اور ظاہری طور پر ایسی حرکات کرتے ہیں کہ لواحقین کو محسوس ہو جیسے انھیں مرنے والے کی موت کا بہت زیادہ دُکھ ہو۔
اسی طرح ایسے سیاسی شعبدہ باز جنھوں نے کبھی زندگی میں ہمارے گھروں کا رُخ نہیں کیا اُن کے دل میں اچانک ہمارے دکھ کے حول اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں اسی لیے تو آجکل آپ نے مختلف سیاسی شخصیات کے سکواڈ جن میں اُن کے ساتھ آٹھ دس افراد " ہاں جی آپ باکل ٹھیک کہہ رہے ہیں" پانچ چھ گن مین تین چار بڑی گاڑیوں میں اکثر سڑکوں پر گشت کرتے نظر آتے ہیں جو اسی تاڑ میں ہوتے ہیں کہ کہاں شادی کے ٹینٹ یا فوتگی کی چٹائیاں نظر ائیں اور وہ جی بھر کر ثواب دارین کمائیں۔ اسی سلسلہ میں گذشتہ دنوں کمرمشانی میں ایک فاتحہ خوانی پر نواب صاحبان کے روپ میں چند گاڑیوں پر سیاست دان آن دھمکے حالانکہ جس جگہ پر وہ فاتحہ خوانی کرنے آئے تھے اُس خاندان کے قبل ازیں بھی کئی افراد وفات پا چکے ہیں لیکن انھوں نے سوچا بھی نہیں تھا ان کا خاندان نواب صاحب کی دعاؤں کے صدقہ میں بخشا جائے گا۔ مجھے قوی امید ہے کہ کمرمشانی اور اس کے گردونواح میں گذشتہ ایک ماہ سے لے کر 8 فروری تک وفات پانے والوں میں کوئی بھی شخص ایسا نہیں رہے گا جو جنت الفردوس کے مزے نہ لُوٹے کیونکہ دعا کیلئے آنے والی ہستیاں نواب صاحبان اور کمرمشانی کے خان صاحبان ہیں۔
کمرمشانی سے تعلق رکھنے والے سیاسی شعبدہ باز خان صاحبان بھی فوتگیوں میں جاتے ضرور ہیں لیکن اٗن کی حرکات و سکنات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بھی سیاسی گُھمر گھیریاں لگانے آئے ہیں کیونکہ جیسے ہی وہ کسی فاتحہ خوانی پر پہنچتے ہیں تو پیچھے سے کوئی نہ کوئی فون کال آ جاتی ہے جس کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ ہم پانچ منٹ میں پہنچے اور پھر لوگوں کو بغیر ملے اپنے اگلے ٹارگٹ کیلئے ایسے نکلتے ہیں جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے۔ اسی لئے میرا تو اہل علاقہ کو مشورہ ہے جنھوں نے بھی اِن دو تین ماہ میں اپنے بندے بخشوانے ہیں وہ بخشوا لیں پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی
واپس کریں