دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بیٹی سدرہ ہم شرمندہ ہیں
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
گذشتہ ماہ میانوالی شہر میں غیرت کے نام پر اپنے سگے باپ کے ہاتھوں قتل ہونے والی بیٹی ڈاکٹر سدرہ کے بیٹوں نے اپنے باپ کو معاف کر دیا جس کی بنا پر وہ باعزت بری ہو کر گھر پہنچ گیا لیکن اتنی جلدی تو ڈاکٹر سدرہ کا کفن بھی میلا نہیں ہوا ہو گا۔ لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ خودساختہ عزت کا وہ شملہ جو ہم نے غرور اور تکبر کے سر پر باندھ رکھا ہے اُس میں ضرور اضافہ ہوا ہو گا۔ اس فعل سے نہ صرف علاقہ میں خان صاحب کی دھاک بیٹھ گئی ہو گی بلکہ ضلع بھر کی بیٹیاں جو قبل ازیں استحصال کا شکار ہیں اور مجبوری کی وجہ سے بول نہیں سکتی وہ اور زیادہ سہم گئی ہوں گی۔ بھائی بھی شاید خوشی سے پھولے نہ سما رہے ہوں کہ ہم سب نے مل کر کتنے شاطرانہ طریقے سے ایک مظلوم بیٹی کا قتل ہضم کر لیا ہے۔ لیکن اس میں اتنے اچھنبے کی کوئی بات نہیں کیونکہ ریاست جسے ماں کہتے ہیں جب ماں ہی ظالم اور جابر لوگوں کے ہاتھوں یرغمال ہو تو بھی ان معصوم اور ناتواں بیٹیوں کا ایسا ہی حشر ہونا ہے لیکن 132 نمبر پر انصاف فراہم کرنے والی قوم کے غیور لوگو جب بھی کبھی اکیلے بیٹھو تو یہ ضرور سوچنا کہ ایک عدالت اوپر بھی لگے گی جس میں مظلوم ڈاکٹر سدرہ کا کیس پیش ہو گا وہاں نہ کسی وکیل کے دلائل کام آئیں گے اور نہ قصاص و دیت کا قانون کام آئے گا وہاں نہ مدعی کو تفتیش میرٹ پر کرنے کیلئے اپنا زیور بیچ کر رقم کی ضرورت ہو گی اور نہ جج خریدنے کی نوبت آئے گی، اس کے انصاف کا ترازو تو ایسا ہو گا جس کی انصاف کرنے والے نے کئی مرتبہ قسمیں کھائی ہیں۔ لیکن افسوس ہے ان اسلام کے ٹھیکیداروں پر جنھوں نے مسجد و ممبر پر قبضہ کر رکھا ہے لوگوں کو "ایک انسان کا قتل گویا پوری انسانیت کا قتل" کی آیات اور احادیث سناتے نہیں تھکتے لیکن ایسے مواقعوں پر اُن کی زبان گنگ کیوں ہو جاتی ہے؟
میں چیلنج کرتا ہوں کہ جہاں ڈاکٹر سدرہ قتل ہوئی وہاں کی مقامی مسجد سے لے کر پورے ضلع کی ایک مسجد میں بھی کسی مولوی نے خطبہ جمعہ میں یا کسی اور وقت اس ظلم اور جبریت کے خلاف ایک لفظ بولا ہو۔ آپ یقین کریں ان مولویوں سے آپ اس موضوع اور قصاص و دیت کے قانون کے غلط استعمال پر بات کر لیں یہ اُلٹا اس کے حق میں دلائل دیں گے۔ شاید آپ کو معلوم نہ ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ قصاص و دیت کا قانون وفاقی شرعی عدالت کی پیدوار ہے جسے فوجی آمر جنرل ضیا الحق نے ملک میں اسلام کے خود ساختہ نفاذ کے لئے قائم کیا تھا۔ آپ اس کی تھوڑی سی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ وفاقی شرعی عدالت نے جماعت اسلامی کے رہنما ایڈوکیٹ اسماعیل قریشی کی درخواست پر ضابطہ فوجداری کی تین سو شقوں کو غیر اسلامی قرار دے کر حکومت کو ہدایت کی کہ وہ اس کی جگہ قصاص و دیت کے قانون کو نافذ کرے۔ انصاف کی فراہمی میں دنیا بھر میں 132 نمبر پر آنے والی سپریم کورٹ نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو ٹھیک گردانتے ہوئے حکومتِ وقت پر دباؤ ڈالا کہ وہ اسلامی قانون کو نافذ کرے۔ کہتے ہیں کہ اس وقت کے می لارڈ چیف جسٹس افضل ظلہ صاحب نے قصاص و دیت کے قانون کے نفاذ کو تبصرہ نگاروں کے مطابق اپنا ذاتی مسئلہ بنا کر حکومت کو مسلسل دباؤ میں رکھا اور مصطفیٰ جتوئی کی نگران حکومت کے دورمیں یہ قانون پاکستانی قانون کا حصہ بن گیا۔
ظلم کی انتہا دیکھیں کہ ایک طرف تو ہم کہتے ہیں کہ ریاست ماں ہے لیکن دوسری طرف اس قانون کے تحت کسی شخص کا قتل ریاست کے خلاف نہیں بلکہ شخص کے خلاف ہے جس نے یہ قتل کیا ہو اور مقتول کے خاندان یا مدعی کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ چاہیں تو قاتل کو معاف بھی کر سکتے ہیں۔ پھر کیا ہوا جب اس قانون کے تحت غیرت کے نام پر بیٹیوں اور بہنوں کا قتل کرنے والوں کو معافی ملنا شروع ہو گئی کیونکہ مرنے والیوں کے قانونی ورثاء اسی خاندان کا ہی حصہ ہوتے ہیں جو قاتل کو معاف کرنے کا مکمل اختیار رکھتے ہیں تو قتل جیسا قبیح کیس فوجداری کی بجائے ایک دیوانی مقدمہ بنا دیا گیا جس کے تحت مقتول کے ورثاء قاتل کو اپنی مرضی سے یا کسی دباؤ کے تحت معاف کر سکتے ہیں چاہے خاندان نے مل کر پہلے سے ایک سازش کے تحت غیرت یا بہن بیٹی کی زمین کا حصہ غضب کرنے کیلئے ہی کیوں نہ کیا ہو۔
وطن عزیز میں جہاں مظلوم طبقہ کو جہاں انصاف کی فراہمی پہلے ہی ناممکن دکھائی دیتی ہے وہاں اس قانون سے استحصال شدہ بیٹیوں اور بہنوں کیلئے جبر اور استحصال کی ایسی راہیں کھلیں ہیں جن کو الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے۔پاکستان میں جب سیاسی مقاصد کے لئے راتوں رات قانون تبدیل ہو سکتا ہے تو اس قانون کو ختم کر کے اس کی جگہ پر زمینی حقائق کے مطابق نیا قانون بنانے میں کیا دشواری ہے؟ کیونکہ دنیا بھر میں نئے قوانین ہمیشہ موجودہ حالات و واقعات کو دیکھ کر عوام کی بھلائی کیلئے بنائے جاتے ہیں۔ اور کیا ایسے قوانین میں ترامیم نہیں کی جا سکتی جن سے معاشرہ اور اس کے خاص کر مظلوم افراد پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہوں؟؟
میں یہاں چیف جسٹس آف پاکستان جناب قاضی فائز عیسیٰ صاحب سے ہاتھ باندھ کر اپیل کروں گا کہ وہ اس سلسلہ میں سوموٹو ایکشن لیں اور ضلع میانوالی کی وکلاء برادری اس مسئلہ پر سامنے آئے اور اپنا بھرپور کردار ادا کرے
واپس کریں