دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سیاست دانوں کے ساتھ سیاست
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
ایک زمانہ تھا جب الیکشن سے چند دن قبل سیاست دان کسی بھی قوم یا محلہ کے چند سفید پوش لوگوں کو کسی بھی طریقہ سے ساتھ ملا لیتے اور الیکشن میں آسانی سے جیت جاتے اس طرح اُن سیاست دانوں کیلئے آسانی ہوتی کہ وہ عوام کے پیچھے دوڑنے کی بجائے ان چند چِٹ پوشوں کو ہی گھیر لیتے اور اپنا مقصد حاصل کر لیتے ۔ چونکہ پرانے لوگوں کے پاس ایک تو تعلیم کی کمی تھی دوسرا وہ انتہائی سادہ لوح قسم کے لوگ تھے جس کی وجہ سے سیاسی بہت آسانی سے ان سادہ لوگوں کو دام میں پھنسا لیتے اور پرانے "وڈکے" یہ سمجھتے کہ جس پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں تو آخری دن تک اسی کے ساتھ ہی کھڑے رہیں گے کیونکہ پارٹی بدلنا ایک قابلِ شرمندگی فعل سمجھا جاتا تھا حالانکہ دوسری طرف یہ سیاسی لوگ ہر الیکشن میں خود پارٹی تبدیل کر لیتے لیکن اگر کوئی ووٹر پارٹی تبدیل کرتا تو اُس کو بہت بُرا بھلا کہا جاتا۔ لیکن جب عمران خان سیاست میں وارد ہوا تو اُس نے ووٹرز کو وہ سبق یاد کروایا کہ ہر آنے والے الیکشن میں عوام کے ذہنوں سے زنگ آلود پردے چاک ہونا شروع ہو گئے جس کی وجہ سے سیاست دانوں سمیت بہت سے پردہ نشینوں کے رُخ سے بھی نقاب اتر گیا اور عوام کی آنکھوں کے سامنے اصل حقائق کھل کر آ گئے۔ دوسری طرف روایتی سیاست دانوں اور ان کے پارٹنر کی بدقسمتی کہیے کہ وہ نسل جو سکولوں میں زیر تعلیم تھی وہ بھی جوان ہو کر ووٹ دینے کے قابل ہو گئی۔ 2018 کے گذشتہ الیکشن میں اس نئی نسل نے ایک ٹریلر دکھایا تھا لیکن اس مرتبہ 2024 کے الیکشن میں ایسی فلم دکھائی ہے کہ تمام دنیا حیران رہ گئی۔
پرانے اور روایتی سیاست دان ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے اور قوم نے ایسے شخص کے نام پر ووٹ دیا جو 8 فروری کی صبح تک کئی لوگوں کی نیندیں حرام کر کے خود جیل میں سکون کی نیند سوتا رہا۔ جس کے نامزد کردہ امیدواروں کو کو جانتا بھی نہیں تھا جبکہ دوسری طرف ریاست کی پوری مشینری سمیت تمام طاقتور طبقات اکٹھے تھے۔ اِن روایتی لوگوں کا خیال تھا کہ ہر بار کی طرح وہ لوگوں کو بے وقوف بنا لیں گے۔ ذرائع کے مطابق کمرمشانی سے تعلق رکھنے والے ایک امیدوار کے ایک چٹ پوش نے گاڑیوں کی تقسیم کے وقت امیدوار سے مطالبہ کیا کہ میرے پولنگ اسٹیشن کیلئے 12 گاڑیاں فراہم کی جائیں تو امیدوار نے اس سے درخواست کی کہ گاڑیاں کچھ کم کر لیں لیکن اُس نے کہا کہ یہ 12 گاڑیاں بھی بہت کم ہیں کیونکہ میرے ووٹ بہت زیادہ ہیں لیکن جب شام کو رزلٹ آیا تو اُس پولنگ اسٹیشن سے اُس امیدوار کے کل 117 ووٹ نکلے ۔ اسی طرح علاقہ بھر میں ہونے والے جلسوں اور کھائے جانے والے حلوہ کے لاکھوں روپے کے بِل جب امیدوار تک پہنچے تو وہ ششدر رہ گیا یہ حلوہ کون لوگ کھا گئے ہیں۔ لوگوں نے نہ صرف اِن لوگوں کا حلوہ کھایا بلکہ گاڑیاں بھی استعمال کیں لیکن ووٹ پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کو دیا۔ الیکشن سے چند دن قبل الله خیل موڑ کمرمشانی پر ایک امیدوار کا بہت بڑا جلسہ تھا میں نے جلسہ میں شرکت کرنے والے اپنے ایک صحافی دوست سے جلسہ کا احوال پوچھا تو اُس نے بتایا کہ تقریباً چار سو لوگ جلسہ میں شریک تھے لیکن اُن میں سے صرف 20 ووٹ جلسہ کرنے والے امیدوار کو ملیں گے۔مزے کی بات ہے کہ مقامی امیدوار اپنے اپنے آبائی وارڈ سے بھی ہار گئے ہاں انھوں نے خود اور ان کے رشتہ داروں نے ووٹ کاسٹ کیا مثلاً ببلی خان کے بیٹے جمی خان کو اپنے آبائی پولنگ اسٹیشن گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول محلہ عالم خان سے کل 108 ووٹ حاصل کئے جبکہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار اقبال خٹک جسے کوئی جانتا بھی نہیں تھا اس کو 377 ووٹ ملے۔
اسی طرح امانت الله خان شادی خیل کو ان کے آبائی وارڈ کے پولنگ اسٹیشن گورنمنٹ بوائز پرائمری سکول جبو وال سے 180 جبکہ اقبال خٹک کو 446 ووٹ ملے ۔ ان ان دیکھے امیدواروں میں قومی اسمبلی کی نشست پر جمال احسن خان نے ایک لاکھ 83 ہزار ووٹوں کی تاریخی برتری حاصل کی جو کہ پاکستان بھر میں ایک ریکارڈ ہے جبکہ ان کے مدمقابل امیدوار عبیداللہ خان شادی خیل نے صرف 34 ہزار ووٹ حاصل کئے اسی طرح صوبائی اسمبلی کی نشست پر اقبال خٹک نے 92 ہزار 4 سو جبکہ امانت الله خان شادی خیل نے 23 ہزار 5 سو ووٹ لے کر شکست کھائی۔ نوابزادہ مزمل خان نے کل 94 سو ووٹ لئے۔ یہ الیکشن پاکستان کی سیاست کیلئے ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا آپ یقین کریں کہ دوسری سیاسی جماعتوں کیلئے اگلا الیکشن اس سے بھی زیادہ عبرت ناک ہو گا اور یہ سیاسی لوگ اسی طرح مار کھاتے رہیں گے جب تک انھوں نے اپنا دماغ نئی نسل کی سوچ کے مطابق نہ بدلا تو یہ لوگ آئندہ آنے والے سالوں میں سیاست سے بھی آؤٹ ہو جائیں گے۔ آپ خود سوچیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا چھاننے والی نئی نسل کے سامنے آپ سر پر چار چار فٹ لمبی پگین باندھ کر اکڑ کر کرسی پر بیٹھ جائیں تو کون ان کو ووٹ دے گا۔ سیاست کا انداز اب بدلنا ہو گا لوگوں کو بے وقوف بنانے کی بجائے اب لوگوں کے دِلوں میں جو شخص گھر کرے گا نئی نسل اس کو ووٹ دے گی۔ الیکشن کے بعد ہمارے ایک دوست نے اُن کے گھر کام کرنے والی چھوٹی بچی سے سوال کیا کہ آپ کے امی ابو نے ووٹ کس پارٹی کو دیا ہے تو اس نے بہت معصوم سا جواب دیا کہ پہلے میرے امی ابو نے ایک مقامی امیدوار کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا لیکن الیکشن سے ایک روز قبل میرے چھوٹے بھائی جو کہ چھٹی جماعت کا طالب علم ہے اُس نے امی ابو کو کہا کہ اگر آپ لوگوں نے بوتل اور وکٹوں کو ووٹ نہ دیا تو میں زہر کھا کر خودکشی کر لوں گا حالانکہ اس نے کبھی بوتل اور وکٹوں والے امیدوار کو آنکھوں سے دیکھا بھی نہیں ہو گا۔
میرا تمام سیاسی لوگوں کو مشورہ ہے کہ اگر آپ نے واقعی سیاست کرنی ہے تو اب آپکو عوامی مفادات کی سیاست کرنی ہو گی۔ لوگوں کے خلاف تھانوں میں ایف آئی آرز درج کرا کے انھیں دبانے کی بجائے ان کے دکھ درد میں شریک ہونا ہو گا، قارون کے خزانے پر سانپ بن کر بیٹھنے کی بجائے اسے عوامی مفاد کیلئے استعمال کرنا ہو گا۔ دس دس گاڑیوں کا حفاظتی سکواڈ ساتھ رکھنے کی بجائے اپنے بزرگوں کی طرح عام لوگوں میں گھل مل کر رہنا ہو گا ورنہ سیاست کی بجائے کوئی اور اچھا سا کام ڈھونڈ لیں وہ زیادہ بہتر رہے گا
واپس کریں