دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
"انسانی جبلت پر عقل و خرد کا غلبہ"
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
کبھی اکیلے بیٹھ کر ہم نے یہ اہم بات سوچنے کی کوشش کی ہے کہ انسان باقی مخلوقات کے مقابلہ میں اشرف المخلوقات کے اہم منصب پر اپنی کس خصوصیت کی بنا کر فائز ہوا ہے۔ اس کا آسان سا جواب ہے کہ یقیناً انسانی عقل و خرد کی وجہ سے ہمیں زمین پر یہ عہدہ ملا ہے۔ انسانی جبلت پر عقل و خرد کا غلبہ ایک نہایت اہم موضوع ہے جو ہماری زندگیوں پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ اگر ہم یہ بات تسلیم کر لیں تو اسی طاقت کے زیرِ اہتمام زندگی کو بہترین طریقہ سے زندگی گزار سکتے ہیں۔ اگر ہم مافوق الفطرت واقعات کی کہانیوں پر یقین کرنے کی بجائے عقل و خرد سے کام لیں تو یہ ہمیں اپنے اندر کے جذبات کو کنٹرول کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے اور مستقل مصیبتوں اور فکری جھڑپوں کو کم کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ عقل و خرد کا غلبہ ہمیں سوچنے اور مشکلات کا حل تلاش کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
اس سے ہمارے اندر نئے نئے طریقوں سے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ انسانی زندگی میں حقیقی تبدیلی لانے کیلئے یہ ایک ایسا آلہ کار ہے جس کو استعمال کر کے ہم جدید اور مثبت تبدیلی کی طرف بڑھ اپنے بہت سے مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں اس سلسلہ میں ایک معروف ماہر نفسیات ریمزے مور کا کہنا ہے کہ "جدید نفسیات نے ہمیں بتایا ہے کہ انسان کے دماغ پر جذبے اور جبلتوں کا تصرف عقل و خرد کی نسبت زیادہ محکم ہے ان جذبات و جبلتوں کے تصرف کو تسلیم کرنے میں کوئی قباحت نہیں لیکن ان کی اطاعت کرنا یقیناً ہمارے حق میں اچھا نہ ہو گا جذبات اور جبلتوں میں حیوان اور ہم برابر کے شریک ہیں انھیں ضبط میں لانے کی صلاحیت ہی ہمیں انسان بنانے کا مستحق بناتی ہے اور جذبات و جبلتوں پر قابو پانا ہی انسانی ترقی کی روح رواں رہا ہے"۔ ارسطو کے نظریہ اخلاق کا بنیادی اصول بھی یہ تھا کہ جذبات پر عقل قابو ہو جس شخص کے جذبات عقل پر حاوی ہو جائیں گے وہ مقام انسانیت سے گر جائے گا۔
معتزلہ سکول آف تھاٹ کا مشہور نظریہ تھا کہ اشیاء کا حُسن شرعی نہیں عقلی ہے کیونکہ انسان ذی شعور اور ذی عقل ہونے کے باعث ہی اخلاق کا مکلف ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عقل ہی نیک و بد میں تمیز کرتی ہے اس لئے خیر و شر کا وجود عقلاً ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی ترقی کی پہلی اینٹ رکھنے والے علی گڑھ مسلم کالج کے بانی سر سید احمد خان چونکہ انہی خیالات کے حامی تھے اس لئے ان کا کہنا تھا کہ "خواہ یہ تسلیم کرو کہ انسان مذہب یعنی خدا کی عبادت کیلئے پیدا ہوا ہے خواہ یہ کہو کہ انسان مذہب کیلئے بنایا گیا ۔ دونوں حالتوں میں ضروری ہے کہ انسان میں بہ نسبت حیوانات کے کوئی ایسی چیز ہے کہ وہ اس وزن کے اٹھانے کا مکلف ہوا ۔ اور انسان میں وہ چیز کیا ہے؟ عقل ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ جو مذہب اس کو دیا جائے وہ عقل انسانی سے مافوق نہ ہو"
مندرجہ بالا تمام حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک ہم مذہبی شعبدہ بازوں کی مافوق الفطرت کہانیوں کے سحر سے باہر آ کر قدرت کے ابدی اصولوں کے سامنے سرنڈر نہیں کریں گے اور دنیا سے مخالف سمت جاری سفر ترک نہیں کریں گے پستی اور تنزلی ہمارا مقدر رہے گی۔
واپس کریں