عصمت اللہ نیازی
شاعری، موسیقی ،مضمون نگاری، قصے کہانیاں اور لطیفے دراصل کسی بھی معاشرہ کی موجودہ ذہنیت ، تعلیمی قابلیت اور سوچ کی عکاسی کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ لکھنے والا شخص فنون لطیفہ میں موجود کردار معاشرہ سے ہی لیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ شیکسپیئر روزانہ شام سے قبل اپنے شہر کے کسی چوک یا پھر بازار کے نکر پر اکیلا خاموشی سے بیٹھ جاتا اور لوگوں کی آمدورفت کو غور سے دیکھتا رہتا پھر کسی ایک کردار کو الفاظ کے ذریعے اپنے ناول یا ڈرامہ میں ڈھال لیتا۔ آرٹ کی ایک معروف صنف لطیفے بھی اسی طرح تشکیل پاتے ہیں لیکن فوک گانوں اور لطیفوں کا کوئی ایک انسان مصنف نہیں ہوتا بلکہ ان کا مصنف معاشرہ خود ہوتا ہے۔ ایک لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی پاکستانی سعودی عرب عمرہ کی غرض سے گیا اور واپسی پر کسی پڑوسی نے سعودیہ کے لوگوں کے بارے میں اُس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ اتنے نیک لوگ ہیں کہ میرا ایک سعودی سے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا اور میں نے اسے گالیاں دینا شروع کر دیا لیکن وہ اس نے مجھے واپس گالیاں دینے کی بجائے قرآن کی تلاوت شروع کر دی (حالانکہ وہ سعودیہ کا باسی بھی اُسے عربی میں گالیاں دے رہا تھا). کچھ عرصہ قبل بنوں کے علاقہ میں ایک کالج میں بیالوجی کے پروفیسر کو ڈارون کا نظریہ ارتقاء کلاس میں طلبہ کو بتانے پر مارنے کی کوشش کی گئی اور آخر کار ڈپٹی کمشنر کی موجودگی میں دفتر میں اُس پروفیسر سے معافی منگوائی گئی۔ اسی طرح پرسوں لاہور کے علاقہ اچھرہ بازار میں ایک اور واقعہ پیش آیا ہے۔
واقعہ کے مطابق ایک خاتون نے کچھ ایسے کپڑے پہن رکھے تھے جن پر عربی زبان میں کیلی گرافی کی گئی تھی اور لباس پر عربی کا لفظ "حلوہ،" لکھا ہوا تھا جس کے معنی خوبصورت کے ہیں
یہ کپڑے عرب دنیا میں بہت مشہور فیشن ہے اور عرب خواتین میں عام استعمال ہو رہے ہیں۔ چونکہ ہمیں دین کو کیا عربی کی بھی سمجھ نہیں ہے لہٰذا وہاں پر موجود کچھ حلوہ کھا مولویوں نے لوگوں کو اکٹھا کر لیا لوگوں نے قرآنی آیات سمجھ کر بے حرمتی کا شور مچا دیا اور اُس خاتون کو جان سے مارنا چاہا لیکن اُس کی خوش قسمتی کہ موقع پر خاتون اے ایس پی، ایس ایچ او اور ڈولفن سکواڈ پہنچ گئے اور اس کی جان بچا لی۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ موقع پر موجود ان نام نہاد علماء دین کو قرآن کا اتنا علم بھی نہیں تھا کہ وہ صرف عربی کیلی گرافی کو قرآن سمجھنے لگے اور انھیں عربی لفظ"حلوہ" کے معنی کا علم نہیں تھا جو وہ گذشتہ سینکڑوں سالوں سے "اندھے وا" کھا رہے ہیں۔ مدرسوں میں وہ یہی حلوہ کھا کر بڑے ہوتے ہیں اور جس مقصد کیلئے مدرسہ جاتے ہیں وہ حاصل کرنے کی بجائے اِن مدرسوں میں جو کام کرتے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور پورا پاکستانی ہجوم جانتا ہے۔ ان حلوہ کھا مولویوں کو اس بات پر شرمندہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ عربی زبان اور قرآن کے علم سے ناخواندہ ہیں لیکن جب اسے عوام سے بچا لیا گیا تو پھر جاہل مولویوں کے سامنے اسے معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا کہ تمہارے کپڑے دیکھ کر ہمیں غلط فہمی ہوئی ہے کہ ان پر قرآنی آیات لکھی ہوئی ہیں۔ لہٰذا ہماری غلط فہمی پر تم ہم سے معافی مانگو۔ واہ جی واہ کیا انصاف ہے۔ اگر بنوں والے واقعہ میں اُلٹا پروفیسر کو غلطی کی معافی منگوانے والے ان جاہل مولویوں کو سزا دی جاتی تو اس قسم کے واقعات کو روکا جا سکتا ہے لیکن جب ہماری عدلیہ کا انصاف دینے میں دنیا میں 140واں نمبر ہو گا تو معاشرہ میں بھی اسی قسم کے انصاف کی توقع رکھنی چاہیے۔ قصہ مختصر کہ جہالت عوام کی ریڈ لائن بن چکی ہے اور جو بھی اسے عبور کرنے کی کوشش کرے گا اسے مار دیا جائے گا۔۔
واپس کریں