دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ماضی کے پرانے کھیل، یادوں میں محفوظ
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
انسان اپنے گزرے وقت کے ساتھ بہت پیار کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنا ماضی ہر لحاظ سے اچھا لگتا ہے۔ ماضی کی یادوں کے ساتھ ہمارا بہت لگاؤ ہوتا ہے اور ہم جب بھی اکیلے بیٹھتے ہیں تو وہی یادیں اکثر ہمارے سرور کا باعث بنتی رہتی ہیں۔ گزرے وقتوں کے مختلف واقعات ، ہمارے رشتے، ہمارے دوست ، کہانیاں، قصے ، عمارتیں ، شخصیات ، کھیلیں ہمارے ذہن میں محفوظ رہتی ہیں۔ مندرجہ بالا تمام اشیاء وقت کے ساتھ بدل جاتی ہیں پرانے واقعات کی جگہ نئے واقعات لے لیتے ہیں ، پرانے رشتوں کی جگہ نئے رشتے ، پرانے دوستوں کی جگہ نئے دوست ، پرانے کھیلوں کی جگہ نئے کھیل آ جاتے ہیں لیکن ہم ان پرانی چیزوں سے یادوں کی شکل میں جان نہیں چُھڑا سکتے۔ آئیے آج پھر اپنی پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہیں کہ ہمارے ماضی میں کونسی مشہور کھیلیں تھیں اور کس طرح کھیلی جاتی تھی۔
میں چونکہ ستر کی دہائی کا انسان ہوں تو اُسی دور کی کھیلوں کی بات کروں گا۔ پہلا کھیل جو بہت زیادہ کھیلا جاتا تھا وہ "چِدھے" ہے جس کا نام اب بدل کر "بینٹھے" ہو گیا ہے "چِدھے" دو طریقوں سے کھیلے جاتے تھے ایک "بوئی" والے اور دوسرا "پِلا گولی". "بوئی والے" کھیل میں زمین کے اندر تقریباً دو انچ گہرا جبکہ چار انچ چوڑا گول گڑھا کھودا جاتا اور دو لڑکے تین چار چار "چِدھے" اکھٹے کر کے تقریباً پانچ فٹ کے فاصلہ سے اس میں پھینکتے اس طرح جتنے "چِدھے" اُس " بوئی" میں چلے جاتے وہ " چِدھے" ڈالنے والا جیت جاتا اس طرح اس کے بعد دوسرے کی باری آ جاتی اور وہ بھی اسی طرح کی ایکسرسائز کرتا۔
دوسری قسم میں زمین کے اندر ایک انچ گہرا اور ایک انچ چوڑا گول سوراخ بنایا جاتا جسے "پِلا" کہا جاتا۔ تین چار لڑکے ایک ایک "اینٹی" اکٹھی کر کے ایک لڑکے کی جھولی پر زور سے مارتے اور اس طرح "اینٹیں" دُور جا گرتیں ، جس کی اینٹی سب سے دُور گرتی اُس کا پہلا نمبر ہوتا وہ یا تو اپنی " اینٹی" پہلے "پِلے" میں ڈالتا یا پھر ساتھ پڑی مخالف "اینٹی" پر چوٹ مارتا اور بعد میں " پِلے" میں ڈالتا۔ اس طرح اور مخالف کی وہ "اینٹی" جیت لیتا، اسی طرح مختلف علاقوں میں چِدھے" کھیلنے کی اس سے ملتی جلتی گیم کھیلی جاتی۔ اُس زمانے کی دوسری بڑی گیم"کھبا کھنڈُوری" تھی جس میں ہاکی کی جگہ"کھبا " جبکہ ہاکی کے گیند کی جگہ بالوں سے خودساختہ بنائی گئی"کھنڈُوری " استعمال کی جاتی ۔ "کھبا" لکڑی کا بنا ہوتا جو کسی درخت کی ٹہنی کو کاٹ کر بنایا جاتا۔ سبز ٹہنی کو کاٹ کر ایک سِرا گرم کر کے گول کر دیا جاتا جس سے وہ ہاکی نما"کھبا " بن جاتا اور دو مختلف ٹیمیں ہاکی کی طرح"کھنڈُوری " کو مخالفت ٹیم کے علاقہ میں مار مار کر لے جاتے لیکن اس میں گراؤنڈ بہت لمبا ہوتا کیونکہ یہ گیم زیادہ تر کُھلی جگہوں پر کھیلی جاتی جیسے پہاڑی بارشی پانی کے نالوں کے بیٹ مین جیسے کمرمشانی کے نزدیک سے گزرنے والے"اڈوالا " یا "بڑوچ" نالہ میں اور اکثر یہ گیم رات کو چاند کی چاندنی میں کھیلی جاتا۔ اور علاقہ کے سارے نوجوان لڑکے اکٹھے ہو کر صبح سرگی تک یہ گیم کھیلتے رہتے ۔ اسی طرح ایک بہت ہی مشہور اور نوجوانوں کی پسندیدہ گیم کا نام "باڈُو" تھا جو کہ "کھبا کھنڈُوری" کی طرح ایک جسمانی ورزش کی گیم تھی ۔ اس کھیل میں زمین پر لمبائی میں تقریباً تین فٹ چوڑے اور کئی فٹ لمبے ڈبے بنائے جاتے۔
اس کھیل میں دو ٹیمیں آپس میں مقابلہ کرتیں ایک ٹیم میں تقریباً پانچ ، دس یا پھر بیس لڑکے شامل ہوتے۔ دونوں متوازی ڈبوں میں دونوں ٹیموں کے لڑکے دوڑتے اور مخالف ٹیم کے ممبر کو ہاتھ لگانے کی کوشش کرتے اور جیسے ہی کسی لڑکے کو ہاتھ لگ جاتا تو وہ لڑکا گیم سے باہر ہو جاتا اور اسی طرح لڑکے ایک ایک کر کے گیم سے باہر ہو جاتے اور گیم میں جس ٹیم کے لڑکے بچ جاتے وہ ٹیم جیت جاتی، یہ گیم بھی اکثر چاندنی راتوں میں کھیلی جاتی۔ "باڈُو" کے بعد "اِٹی ڈنہ" بھی بہت معروف کھیل جانا جاتا جس میں لکڑی کا بنا ہوا "ڈَنہ" یعنی ڈنڈا اور لکڑی سے بنی ہوئی ایک "اِٹی" شامل تھی ، "ڈَنہ" تقریباً دو فٹ لمبا اور ایک ڈیڑھ انچ موٹا ڈنڈا ہوتا. یہ گیم بھی دو قسم کی ہوتی ایک میں موٹی جبکہ دوسری میں پتلی"اِٹی" استعمال ہوتی۔ موٹی "اِٹی" کی گیم میں "اِٹی" "ڈنے" پر رکھ کر جھٹکے سے اچھالی جاتی اور پھر ابھی وہ ہوا میں ہی ہوتی کہ اس پر "ڈَنے" کے ساتھ پورے زور سے ضرب لگائی جاتی تاکہ وہ کرکٹ کی گیند کی طرح دور جا کر گرے لیکن جس مقام پر "اِٹی" نے گِرنا ہوتا وہاں مخالف ٹیم کے کھلاڑی کھڑے ہوتے جو اُس "اِٹی" کو کیچ کرنے کی کوشش کرتے اور اگر کیچ ہو جاتا تو "ڈَنے" والا کھلاڑی آؤٹ ہو جاتا ورنہ ضرب لگانے کے مقام اور "اِٹی" کے گرنے کے مقام کا درمیانی فاصلہ "ڈَنوں" کے حساب سے جمع کر لیا جاتا اور آخر کار جب کھلاڑی آؤٹ ہوتا تو اس کا کل سکور لکھ لیا جاتا۔
اسی طرح دوسری قسم میں " ڈَنہ" تو پہلی طرز کا ہوتا لیکن "اِٹی" کا ڈیزائن مختلف ہوتا اور تقریباً چار انچ کی لکڑی کی پتلی ٹہنی کے دونوں سِرے نوکیلے بنا دئیے جاتے اور "اِٹی" کو زمین پر رکھ کر ایک نوکیلے سرے پر ضرب لگا کر ہوا میں لہرا کر اس پر دوبارہ زور سے ضرب لگائی جاتی تاکہ وہ زیادہ دور جا گرے لیکن یہ گیم اکثر اوقات صرف دو کھلاڑیوں کے درمیان ہوتی جو گھنٹوں ایک دوسرے کو "جُھری" لگائے رکھتے۔ اسی طرح "کُھر کُھر" بھی بہت زبردست اور جسمانی ورزش کی گیم تھی جس میں فٹ بال کی طرح بہت سٹیمنہ کی ضرورت تھی اس میں بھی بالوں سے ایک "کھنڈُوری" بنائی جاتی جو ذرا سخت قسم کی ہوتی۔ اس میں بھی دو ٹیمیں حصہ لیتیں۔ جن میں کھلاڑیوں کی تعداد دس ، پندرہ ، بیس تک ہوتی اور ایک ٹیم کا کھلاڑی گیند نما "کھنڈُوری" اپنے مخالف ٹیم کے کھلاڑی کو زور سے مارتا جبکہ آگے والا پوری کوشش کرتا کہ وہ یہ وار خطا کروا دے اس طرح جتنے وار خطا ہوتے اس ٹیم کے سکور میں اضافہ ہوتا جبکہ "کھنڈُوری" لگنے کی صورت میں دوسری ٹیم کے سکور میں اضافہ ہوتا اور آخر پر کم سکور والی ٹیم ہار جاتی ۔
اس " کُھر کُھر" کو عیسیٰ خیل اور ترگ کے علاقہ میں "مار دھراڑ" بھی کہتے ہیں ۔ جسمانی ورزش کی تقریبا یہ تمام گیمیں رات کو چاند کی چاندنی میں کھیلی جاتیں ۔ اسی طرح ماضی میں زیادہ کھیلی جانے والی گیموں میں "چَھپ چَھڑُکی" بھی بہت اہمیت کی حامل گیم تھی جو صرف رات کو ہی کھیلی جاتی جس میں دو ٹیمیں شامل ہوتیں اور ہر ٹیم میں کئی نوجوان شامل ہوتے۔ ایک ٹیم کے نوجوان بھی جگہ پر اپنے آپ کو چُھپا لیتے اور پھر دوسری ٹیم ان کے کھلاڑیوں کو ایک ایک کر کے تلاش کرتے اور اگر چھپے ہوئے سب کھلاڑی تلاش ہو جاتے تو تلاش کرنے والی ٹیم جیت جاتی ورنہ چھپنے والی ٹیم حاوی رہتی اور اسی طرح یہ مقابلہ جات رات گئے تک جاری رہتے ۔ اسی طرح کی اس سے ملتی جلتی ایک گیم محلہ کے مختلف گھروں میں لکڑی کے انگاروں سے لکیریں کھینچنے کی بھی تھی جس کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے جس میں "چَھپ چَھڑُکی" کی طرح دونوں ٹیمیں اپنے مخالف کھلاڑیوں کے گھروں کی دیواروں پر انگاروں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ خفیہ جگہ پر لکیریں لگاتے اور پھر آخر میں دونوں ٹیمیں ایک دوسرے کی لکیریں ڈھونڈتے ۔ اور جس ٹیم کی زیادہ لکیریں مل جاتیں وہ ٹیم ہار جاتی ۔ "پیٹُو گرم" بھی زیادہ کھیلی جانے والی گیم تھی جس میں مٹی کے ٹُوٹے ہوئے برتنوں کی باقیات سے تقریباً دو تین انچ گول شکل کے "پِھیتے" گھڑ کر بنائے جاتے اور ایک تین فٹ دائرہ کے درمیان ان سات عدد "پِھیتوں" کو ایک دوسرے کے اوپر رکھ کر ایک "ڈِھگی" بنا دی جاتی اور ایک ٹیم کا ایک کھلاڑی دائرہ سے آٹھ فٹ دور کھڑے ہو کر "پِھیتوں" کی "ڈِھگی" کو گیند سے اتنی زور سے گِراتا کہ اکثر "پِھیتے" دائرہ سے بھی باہر جا گرتے ، اس کے بعد ہِٹ کرنے والے کے باقی ساتھی دوڑ کر دائرہ میں " پِھیتوں" کی وہ "ڈِھگی" دوبارہ بنانے کی کوشش کرتے تو اسی اثناء میں مخالف ٹیم کے کھلاڑی دوڑ کر گیند پکڑتے اور پھر اسی گیند سے ہِٹ کرنے والی ٹیم کے کسی بھی کھلاڑی کو گینڈ سے مارتے اور اگر گیند کسی کھلاڑی کو لگ جاتی تو ہِٹ کرنے والی پوری ٹیم کی باری ختم ہو جاتی اسی طرح ایک "پِیٹو" مکمل ہونے پر ایک سکور مکمل ہو جاتا اور جتنے زیادہ "پِیٹو" بنتے اتنے سکور زیادہ ہوتے اور آخر کار زیادہ سکور والی ٹیم گیم جیت جاتی۔ مندرجہ بالا تمام کھیلیں نوجوان کی گیمیں تھیں سوائے "چھپ چُھڑکی" کے جو کہ نوجوانوں اور لڑکیوں کی کامن گیم تھی ۔لیکن لڑکے علیجدہ کھیلتے جبکہ لڑکیاں علیجدہ کھیلتیں۔
اب ہم یہاں لڑکیوں کی چند کھیلوں کا ذکر کرتے ہیں جن سب سے قابل ذکر کھیل"گُڈی گُڈے کا کھیل" تھا جس میں لڑکیاں پرانے کپڑوں کی باقیات سے "گُڈی اور گُڈے" بنا لیتیں۔ سوئی اور دھاگہ سے "گُڈی گُڈے " کے بال ، آنکھیں اور بازو ، و ٹانگیں بھی بنائی جاتیں اور پھر لڑکیاں ان "گُڈی گُڈے" کے گھر بناتیں ان کے آپس میں رشتے طے ہوتے اور باقاعدہ شادی کی رسم ادا کی جاتی جس میں گھروں اور محلوں میں رہنے والی رشتہ دار اور پڑوسن لڑکیاں بھرپور شرکت کرتیں ۔ "گُڈی گُڈے" کا کھیل ایک انڈور گیم تھی جبکہ لڑکیاں بھی بہت سی جسمانی ورزش کے کھیل بھی کھیلتیں جن میں "چُنجُو سائی"قابلِ ذکر کھیل تھا جس میں زمین پر پانچ فٹ چوڑا اور دس فٹ لمبا ڈبہ لکیریں لگا کر بنایا جاتا پھر اُس کو مزید چھوٹے ڈبوں میں تقسیم کر دیا جاتا اس طرح پانچ خانے ایک سائیڈ اور پانچ خانے دوسری سائیڈ پر بن جاتے اب ایک لڑکی ایک مٹی کے برتن کی باقیات سے بنا "پِھیتا" پہلے ڈبہ میں پھینک دیتی اور پھر ایک پاؤں اٹھا کر دوسرے پاؤں کے ساتھ اُس ڈبے سے باہر پھینکتی ، اس طرح دوسرے پھر تیسرے اور پانچویں ڈبے سے بھی بغیر لکیر کو چھوئے وہ "پِھیتا" ہاںر نکالنا پڑتا اور تمام مراحل مکمل ہونے کے بعد ایک گیم مکمل ہو جاتی پھر اسی طرح سارا دن کئی کئی گیمیں مکمل کی جاتیں اس کھیل کو عیسیٰ خیل اور ترگ کے علاقہ میں "چِیچی خاما" بھی کہتے ہیں ۔
اسی طرح ایک کھیل "کوکلا چھپاکی" تھی جس میں لڑکیاں ایک دائرہ کی شکل میں ایک دوسرے کی طرف منہ کر کے بیٹھ جاتیں۔ اُن میں سے ایک لڑکی کے دوپٹہ سے ایک رسہ نما "دمبولا" بنا دیا جاتا ، ایک لڑکی وہ "دمبولا" پکڑے دائرہ کے گرد گھومتی رہتی اور ساتھ ساتھ " کوکلا چھپاکی جمعرات آئی ، جس نے مُڑ کے دیکھا اُس کی شامت آئی" بھی باآواز بلند دہراتی رہتی اور اسی اثناء میں ایک لڑکی کی پیٹھ پیچھے وہ "دنبولا"رکھ دیتی۔ اگر متاثرہ لڑکی کو "دنبولے" کا علم ہو جاتا تو وہ اُٹھ کر وہ "دنبولا" اُٹھا لیتی اور دائرہ کے گرد گھومنے والی لڑکی کے پیچھے مارنے کیلئے بھاگ پڑتی اور جب تک وہ لڑکی خالی جگہ پُر نہ کر لیتی وہ اس کے پیچھے بھاگتی رہتی اور لڑکی کے بیٹھ جانے کے بعد وہ نئی لڑکی پورا پراسس کرتی اس طرح سب لڑکیوں کی باری آتی جاتی اور وہ بھاگتی رہتیں۔ یہ کھیلیں قیام پاکستان سے پہلے کی تھی اور تقسیم سے قبل ہندو اور مسلمان مل کر یہ کھیلیں کھیلتے اور کسی قسم کوئی مذہبی عنصر آڑے نہ آتا بلکہ کافی بڑی عمر ہونے تک ہندو مسلم بہن بھائیوں کی طرح یہ کھیلیں کھیلتے ۔ اس طرح تقسیم کے بعد بھی اسی کی دہائی تک یہ کھیلیں بہت شوق کے ساتھ کھیلی جاتیں۔ پھر اسی کی دہائی میں ہاکی بہت زیادہ عام ہونا شروع ہو گئی پاکستان کی قومی ہاکی ٹیم پوری دنیا میں چھائی رہی اور ورلڈ کپ سمیت کئی بین الاقوامی ٹورنامنٹ جیتے ،بجس کو دیکھتے دیکھتے پورے ملک کے گلی محلوں میں ہاکی شوق سے کھیلی جانے لگے اور آہستہ آہستہ کرکٹ بھی آنا شروع ہو گیا ۔ کمرمشانی میں کرکٹ لانے کا سہرا سابق ممبر پنجاب پبلک سروس کمیشن اسلم خان شادی خیل کے سر ہے جنھوں نے کمرمشانی میں پہلی مرتبہ کرکٹ کھیلنے کیلئے وکٹیں لگائیں۔
اس کے بعد ملک بھر کی طرح اس علاقہ میں بھی ہاکی تو آئے روز دم توڑتی گئی لیکن کرکٹ اور والی بال نے خوب ترقی کی، کرکٹ کو شہر کے بزرگوں نے بھی بہت سپورٹ کیا آئے روز بڑے بڑے ٹورنامنٹ منعقد ہونے لگے اور سلیم خان شادی خیل حبیب بنک، اشتیاق خان تحصیل دار شادی خیل ، استاد ارشاد خان تانی خیل، جاوید قریشی ، ڈاکٹر طارق خان تانی خیل، جمال دین قریشی مرحوم کرکٹ کے معروف کھلاڑیوں میں شامل رہے۔ دوسری طرف والی بال نے بھی ترقی کی خوب منازل طے کیں پکی بال کے آئے روز کمرمشانی اڈہ پر ٹورنامنٹ ہوتے ۔ اقبال خان شادی خیل ، سابق چیئرمین ثقلین خان دراز خیل ، گل نواز خان لوہان خیل ، امان اللہ عرف کاکا قصاب، محمود اور حنیف مندہ خیلوی سمیت والی بال کے کئی بڑے کھلاڑی وقت کے ساتھ اپنا جوہر دکھاتے رہے۔ پھر وقت نے پلٹا کھایا پاکستان میں کمپیوٹر آیا تو کچھ عرصہ بعد کمرمشانی میں بھی کمپیوٹر وارد ہو گیا اور ساجد قریشی محلہ سرمت خیل نے پہلا کمپیوٹر کالج بنا لیا جس سے نئی نسل میں کمپیوٹر کا شوق بڑھنے لگا تو نئے لڑکوں نے کمپیوٹر پر پہلی گیم "پیک مین" اور " پِرنس آف پرشیا" کھیلنا شروع کی اس طرح کھیلیں جسمانی ورزش کی بجائے چُھپ کر کمپوٹر کی سکرین میں جا بیٹھیں ۔ سب نوجوان کمپیوٹر کی سکرین کے سامنے بیٹھ گئے اس طرح کمپیوٹر اور گیمیں تو اپ گریڈ ہوتی رہیں لیکن نوجوان نسل کا جسم اور دماغ زنگ آلود ہونا شروع ہو گیا اور پھر جب یہی کمپیوٹر میز سے اُتر کر اینڈروئیڈ موبائل کی شکل میں نوجوان نسل کی جیب میں داخل ہوا تو اپنے ساتھ "پب جی" سمیت سینکڑوں ڈیجیٹل کھیلیں بھی لے آیا۔
"پب جی" نے نوجوان نسل کی وہ مت ماری کہ لاکھوں نوجوانوں کی نہ صرف عقل ساکت و جامد ہو گئی بلکہ گھنٹوں دن رات موبائل فون پر یہ ڈیجیٹل کھیلیں کھیلنے سے کئی قسم کی جسمانی اور ذہنی بیماریوں کا بھی شکار ہو گئے اور وہ کھیلیں جو نوجوانوں کے جسم کیلئے ایک نعمت کی حیثیت رکھتی تھیں وہ صرف یادوں میں محفوظ ہو گئی ہیں
واپس کریں