دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
"کمرمشانی کرکٹ اسٹیڈیم تباہی کے دھانے پر"
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
آج سے پانچ چھ سال قبل جب کمرمشانی کرکٹ اسٹیڈیم کی تعمیر کا کام شروع ہوا تو بہت سے مقامی سیاست دانوں نے اس کا کریڈٹ لینے کی بھرپور کوشش کی اور لوگوں کو باور کرانے کی کوشش کی کہ انھوں نے بڑی محنت کے بعد اور اپنا بہت سارا سیاسی نقصان کر کے یہ اسٹیڈیم کمرمشانی میں تعمیر کرایا ہے حالانکہ یہ بات کئی لوگ جانتے ہیں کہ اس اسٹیڈیم کا فنڈ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے کئی پسماندہ ممالک میں کرکٹ کے فروغ کیلئے براہ راست سپورٹس بورڈز کو دیا تھا جس کا سیاسیوں کو علم بھی نہیں تھا اور اس بات کے گواہ سابق ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر امتیاز خان ہیں۔ بہرحال کہتے ہیں دودھ حاصل ہو گیا چاہے"اکڑُوں" سے بھی ہوا اور اسٹیڈیم مکمل ہو کر آپریشنل ہو گیا۔ تو سب سے پہلے وہاں کنٹریکٹ پر سیاسی لوگوں کے بھائی اور رشتہ دار بھرتی کر لئے گئے جوبکںھی اسٹیڈیم تو نہ آئے ہاں البتہ گھر بیٹھ کر تنخواہیں وصول کرتے رہے۔ چلو پھر بھی کمرمشانی کی نوجوان نسل کو پہلی مرتبہ ایک ایسی سہولت میسر ہوئی کہ سہہ پہر کو نہ صرف اس اسٹیڈیم میں کرکٹ کی پریکٹس کرنے والوں بلکہ وہاں دوسرے لوگوں کو بھی ایک مثبت تفریح کا موقع ملا اور سہہ پہر کو اگر آپ اسٹیڈیم جائیں تو ایک الگ دنیا نظر آتی ہے جس میں نہ صرف اکثر چھوٹے بچے آپس میں کھیلتے نظر آئیں گے اور بلکہ بزرگ اور نوجوان ٹولیوں کی شکل میں آپس میں مختلف موضوعات پر گپ شپ لگاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن گذشتہ دو سالوں سے اس کی حالت خراب ہوتی جا رہی ہے۔ ایک طرف تو روزانہ کھیلے جانے والے ہر میچ کی فیس کے طور پر غیر رجسٹرڈ کلب دو ہزار روپے جبکہ رجسٹر کلب ایک ہزار روپے ادا کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف اسٹیڈیم کی یہ صورتحال ہے کہ گذشتہ دو سال سے نیٹ پریکٹس کرنے والے جال بالکل ختم ہو چکے ہیں اور کئی مرتبہ اسٹیڈیم آنے والے اور پچھلی طرف واقع سڑک سے گزرنے والے لوگوں کو کرکٹ گیند زخمی کر چکی ہے۔ کئی من وزنی میں گیٹ جو گذشتہ ایک سال سے ٹوٹ کر لٹک رہا ہے اور کسی بھی وقت کسی بچے یا نوجوان کے اوپر گر کر جانی نقصان کا سبب بن سکتا ہے اُس پر چند سو روپے خرچ ہوں گے لیکن ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر اور اسٹیڈیم کے متعلقہ عملہ کی غیر ذمہ داری کی انتہا دیکھیں کہ کئی بار توجہ دلانے کے باوجود اُن کے کان پر جُوں تک نہیں رینگی ۔ لاکھوں روپے مالیت سے لگائی گئی گھاس کی حالت بھی آئے روز خراب ہو رہی ہے لیکن کوئی توجہ نہیں دی جا رہی اور اب تو ظلم کی انتہا کر دی گئی ہے کہ گذشتہ چند دن سے بجلی کا کنکشن بھی بل ادا نہ کرنے کی وجہ سے کاٹ دیا گیا ہے جبکہ ڈسٹرکٹ سپورٹس بورڈ کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس تو ایک روپیہ بھی فنڈز موجود نہیں جس سے بل ادا کیا جائے ۔ ایسی صورتحال میں تو کروڑوں روپے مالیت کے اس اسٹیڈیم میں بغیر پانی کے نہ کوئی پودا زندہ رہے گا اور نہ ہی گھاس زندہ بچے گی اور کچھ عرصہ بعد نوجوان نسل کی یہ نعمت بھی ختم ہو جائے گی۔ مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ بھی کمرمشانی کی نوجوان نسل کے ساتھ ایک سوچی سمجھی سازش ہے جو غیر محسوس طریقہ سے چھینی جا رہی ہے تاکہ نئی نسل مثبت سرگرمیوں کی بجائے منشیات اور اسلحہ کی طرف راغب رہے اور ان لوگوں کا کاروبارِ سیاست چلتا رہے۔ لیکن ایک بات ذہن نشین کر لیں کہ اب وہ دور نہیں رہا جب سیاست دان لوگوں کو بے وقوف بنا لیتے تھے اب کمرمشانی کے نوجوان باشعور اور پڑھے لکھے ہیں اور یہ سب چالیں جانتے ہیں۔ ابھی فروری میں پھر الیکشن متوقع ہیں اور آپ نے انہی لوگوں کے پاس آنا ہے پھر آپ رونا روتے ہیں کہ کمرمشانی والے ہمیں ووٹ نہیں دیتے۔ کمرمشانی سے تعلق رکھنے والے کرکٹ کے کھلاڑیوں سمیت نوجوانوں سے درخواست ہے کہ اپنے حقوق چھین کر حاصل کرنا سیکھئے آگے آئیے بولئے ، سوال کیجئے ، جواب مانگیئے، ڈپٹی کمشنر میانوالی سجاد احمد خان اور ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر صاحب سے حساب کتاب مانگئئے کہ ہمیں دو سال کا حساب دیں کھلاڑیوں نے میچ فیس کی مد میں جو لاکھوں روپے جمع کرائے ہیں وہ کہاں گئے؟ ہم آپ سے فنڈز نہیں مانگتے بلکہ ہمارے اپنے پیسے واپس کیجئے کیونکہ ہم خود اپنے اسٹیڈیم پر رقم خرچ کریں گے۔ اس طرح ہم نوجوانوں کا قیمتی اثاثہ سازش کے تحت اُجڑتا ہوا نہیں دیکھ سکتے ۔ جلدی کیجئے۔ خدارا اس سے پہلے کہ سٹیڈیم ویران ہو جائے اپنے قیمتی اثاثہ کو بچا لیجئے
واپس کریں