عصمت اللہ نیازی
گذشتہ دن صوبائی اسمبلی کے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ کے خواہش مند ضلع میانوالی سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کے انٹرویو مکمل ہو گئے ۔ یہ انٹرویو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ذاتی حیثیت میں کر رہے ہیں ۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے 2018 کے الیکشن کے بعد ایک غلطی تو تسلیم کی تھی کہ پارٹی ٹکٹ کی تقسیم میں ان سے بہت سی غلطیاں ہوئی تھیں اور انھوں نے کئی حلقوں میں غلط لوگوں کو ٹکٹ دے دیئے جس کی وجہ سے نہ صرف الیکشن کے نتائج پر بہت منفی اثرات پڑے بلکہ پاکستان تحریک انصاف کی مجموعی طور پر سیٹیں بھی کم ہوئیں ۔ عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئندہ الیکشن میں وہ پہلے والی ایسی غلطی نہیں دُھرائیں گے جس سے پارٹی پر منفی اثر پڑے لہٰذا پارٹی ذرائع کے مطابق آنے والے الیکشن میں پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم خالصتاً میرٹ اور سائنسی بنیادوں پر کی جائے گی جس کیلئے پارٹی کافی عرصہ سے اس پر کام کر رہی تھی اور اس سلسلہ میں کروڑوں روپے کی لاگت سے ایک ایسا سافٹ ویئر بھی منگوایا گیا تھا جس میں تمام صوبوں سے متوقع امیدواروں اور عہدیداروں کی ہر قسم کی کارکردگی متواتر چیک کی جا رہی تھی جس میں یہ بھی دیکھا جا رہا تھا کہ امیدوار پارٹی کے ساتھ کب سے وابستہ ہے اور گذشتہ ایک سال سے پارٹی پر بحران میں کس امیدوار نے کتنا حصہ بٹایا اور پارٹی کے ساتھ کھڑا رہا اور گذشتہ الیکشن میں امیدوار نے کتنے ووٹ حاصل کئے۔
اس سلسلہ میں چیئرمین عمران خان نے یہ بھی کہا تھا کہ جو ممبران اسمبلی بحران میں پارٹی کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے رہے سب سے پہلے ان کو پارٹی ٹکٹ دیئے جائیں گے۔ اسی وجہ سے پارٹی ذرائع کے مطابق صوبہ پنجاب میں الیکشن کے اعلان کے ساتھ ہی ضلع میانوالی میں ٹکٹوں کی تقسیم کے لئے منعقد کئے گئے ایک اہم اجلاس میں عمران خان نے کہا کہ وہ ضلع میانوالی سے تعلق رکھنے والے کسی سابق ممبر صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ تبدیل نہیں کریں گے اور اگر دیکھا جائے تو عمران خان کا یہ فیصلہ سیاسی طور پر بالکل درست بھی ہے کیونکہ ہمیشہ پارٹی کا ٹکٹ اس حلقہ میں تبدیل کیا جاتا ہے جہاں سیٹ ہارنے کا خدشہ ہو لیکن ضلع میانوالی میں تو چاروں صوبائی حلقوں پر پی ٹی آئی کے امیدواروں نے 2018 کے الیکشن میں مخالفین پر بھاری اکثریت حاصل کی تھی جس کا ہم یہاں تھوڑا سا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
سب سے پہلے حلقہ پی پی 85 عیسیٰ خیل میں کل ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 33 ہزار 4 سو 36 تھی جس میں سے پی ٹی آئی کے امیدوار عبدالرحمان المعروف ببلی خان نے 75 ہزار 3 سو 98 جبکہ ان کے مخالف ن لیگ کے امیدوار امانت اللہ خان شادی خیل نے 35 ہزار 87 ووٹ حاصل کئے اس طرح ببلی خان کی لیڈ 75 ہزار 8 سو 11 ووٹوں کی تھی جو کہ شاید پنجاب بھر میں بہت سے زیادہ برتری تھی اب اتنی زیادہ برتری سے جیتی ہوئی سیٹ کا ٹکٹ بِلا کسی حجت تبدیل کرنا کونسا سیاسی فیصلہ ہو گا اور ایسا فیصلہ عمران خان کیونکر کریں گے اور اگر کوئی پارٹی عہدیدار اس قسم کا مشورہ دیتا ہے تو وہ کسی طرح بھی پارٹی کے مفاد میں نہیں ہو گا بلکہ اس سے براہ راست فائدہ مخالف پارٹی ن لیگ کے امیدوار کو ہو گا لہٰذا اس صورتحال میں یہ ممکن ہی نہیں کہ ٹکٹ کسی نئے امیدوار کو دے کر نیا تجربہ کیا جائے کیونکہ پاکستان کی سیاست میں نئے تجربات اکثر نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ اسی طرح حلقہ پی پی 86 میں کل ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 30 ہزار 8 سو 50 تھی جس میں سے پی ٹی آئی کے امیدوار امین اللہ خان نے 55 ہزار 6 سو 44 جبکہ مخالف آزاد امیدوار عادل عبداللہ روکھڑی نے 37 ہزار 9 سو 56 ووٹ حاصل کئے اس طرح پی ٹی آئی کے امیدوار کی 17 ہزار 6 سو 18 ووٹوں کی برتری تھی۔
حلقہ پی پی 87 میں کل ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 30 ہزار 7 سو 80 تھی جس میں سے پی ٹی آئی کے امیدوار احمد خان بھچر بلا مقابلہ منتخب ہوئے تھے۔ حلقہ پی پی 88 پپلاں میں کل ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 4 ہزار 21 تھی جس میں سے پی ٹی آئی کے امیدوار سبطین خان نے 55 ہزار 6 سو 44 جبکہ ن لیگ کے امیدوار ملک فیروز جوئیہ نے 37 ہزار 9 سو 56 ووٹ حاصل کئے اور اس حلقہ میں بھی پی ٹی آئی کے امیدوار کی 17 ہزار 6 سو 88 ووٹوں کی واضح برتری تھی۔ 2018 کے الیکشن میں جبکہ عمران خان کا سیاسی گراف اتنا اونچا نہیں تھا جتنا اس وقت عروج پر ہے جب اس وقت ضلع میانوالی سے پی ٹی آئی کے تمام امیدواروں کی مندرجہ بالا واضح صورتحال کے باوجود میرا نہیں خیال کہ عمران خان کو کوئی بھی اعلیٰ پارٹی مشیر یا عہدیدار ضلع میانوالی کے کسی بھی حلقہ کے ٹکٹ تبدیل کرنے کا مشورہ دے گا اور نہ عمران خان ایسا کوئی غیر سیاسی فیصلہ کرنے جا رہے ہیں لہٰذا پی ٹی آئی کے تمام ورکرز پارٹی کے وسیع تر مفاد اور عمران خان کے نظریہِ کے ساتھ کھڑے ہوں اور پارٹی جو فیصلہ بھی کرے اس کو سر تسلیم خم کر کے مان لیں اور ابھی سے ایک دوسرے کے خلاف گروپ بندی شروع نہ کریں کیونکہ مخالفین تو اسی وقت کی تاڑ میں ہیں کہ حلقہ پی پی 85 میں اگر پی ٹی آئی شاید گروپ بندی کا شکار ہو کر 2013 والے انتخابات کی رویت کو دھرائے تو شاید کہی سے ان کی گنجائش پیدا ہو جائے۔
واپس کریں