عصمت اللہ نیازی
گذشتہ دنوں پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران سابق صدر آصف زرداری نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی مخالفت میں کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو کر میانوالی کے نیازیوں کو پاکستان میں مہاجر قرار دے دیا اور انھوں نے فرمایا کہ پاکستان کی دھرتی پر سندھیوں نے ہی ان کو پناہ دی۔ زرداری صاحب نے شاید غلط فہمی میں یا پھر چند دن کے اقتدار کے نشہ میں نیازی قبیلہ کو بھی بنگلہ دیش سے آئے ہوئے مہاجر سمجھ لیا ہو لیکن میں یہاں ان کے علم میں اضافہ کیلئے تاریخ سے چند حقائق پیش کر دیتا ہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ زرداری صاحب اور عمران خان اس ملک کی دو سیاسی جماعتوں کے سربراہان ہیں اور یہ ہمارا المیہ ہے کہ سیاسی لوگ اس ملک میں عوام کی فلاح و بہبود کے کام کرنے کی بچائے صرف ایک دوسرے پر الزام تراشی اور گالم گلوچ کر کے اپنے ورکرز کو بے وقوف بناتے رہتے ہیں اور آئندہ بھی بناتے رہیں گے لیکن اب شخص کی مخالفت میں اس کی پوری برادری پر بات کرنا کسی طور پر بھی قابلِ برداشت نہیں۔
نیازی قبیلہ کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں یہ افغانستان کے پٹھان ہیں اور چونکہ افغانستان کا علاقہ ماضی میں میانوالی سے بھی آگے تک پھیلا ہوا تھا تو نیازی یہاں مہاجر بن کر افغانستان سے نہیں آئے بلکہ یہاں آجکل میانوالی ہے وہاں سے آگے تک افغانستان کا علاقہ تھا لہٰذا ہمارا یہ جدی پشتی علاقہ ہے اور اگر بات کی جائے پٹھان کی تاریخ کی تو یہ قوم اسلام سے بھی قبل کی ہے اور تاریخ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پٹھانوں کے سربراہ قیس عبدالرشید کو بہادری پر شاباش دی جسے خصوصی طور پر افغانستان سے جنگ لڑنے کیلئے بلایا گیا تھا اسی طرح بعض محقیقین کا دعویٰ ہے کہ لفظ پشتون کا ذکر رگ وید میں کیا گیا ہے جس میں اسے پکھت کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ اسی طرح یونانی مورخ ہیرو ڈوٹس (486-466 ق-م) نے بھی اپنی تحریروں میں ایک قوم کا ذکر کیا جو ان کے الفاظ میں سخت تیر انداز تھے، ان کا لہجہ سخت تھا، دراز قد اور طاقتور جسم کے مالک تھے۔ ہیروڈوٹس نے ان کو "پکٹویس" ٫ "پکٹو" اور ان کے وطن کو پکتیکا، پکتیکے کے ناموں سے یاد کیا ہے۔ اب آتے ہیں زرداری صاحب کے آباؤ اجداد کے طرفکہ وہ کتنے خاندانی تھے۔ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ سندھ کی ثقافت ہزاروں سال پرانی ہے لیکن کیا زرداری صاحب نے اپنے گریبان میں بھی کبھی جھانک کر دیکھا ہے کہ زرداری خاندان تو خود بلوچستان سے آ کر یہاں سندھ میں آباد ہوا ہے۔ جبکہ بمبینو سینما کے گیٹ پر ٹکٹ بیچنے والا ایک شخص کس طرح ارب پتی بنا اور اب وہ اس ملک کا ایک معزز شخص بنا پھرتا ہے۔ دوسری طرف اس نے اپنے بیٹے کی قومیت کو دنیا کے سامنے چوں چوں کا مربہ بنا کر پیش کیا ہے اور ایسے معلوم ہوتا ہے کہ نہ وہ بھٹو ہے اور نہ ہی زرداری۔
جس طرح اس نے جعلی وصیت کے ذریعے پارٹی پر غاصبانہ قبضہ کیا اسی طرح اپنے بیٹے کو بھی جعلی بھٹو بنا کر اس خاندان پر بھی قبضہ کر لیا۔ میں یہاں لوگوں کے ریکارڈ کی درستگی کیلئے بھٹو خاندان کی بھی تھوڑی سی تاریخ کی جھلک دکھا دیتا ہوں کہ بھٹو خاندان خود کتنا سندھی ہے. اس خاندان کے بارے میں مؤرخین کی دو آراء ہیں بعض محققین کا خیال ہے بھٹو جیلسمیر (بھارتی علاقہ) کے راجپوت ہیں جو 18ویں صدی کے آغاز میں سندھ منتقل ہو گئے تھے لیکن کچھ محققین کہتے ہیں یہ قبیلہ دراصل بھارتی صوبہ حصار کے گاؤں بھٹہ کا رہائشی ہے اور یہ گاؤں آرائیوں کا تھا یعنی بھٹو بھی آرائیں ہیں۔
یہ دونوں باتیں محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب میں بھی لکھی ہیں اور محترمہ خود کو راجپوت سمجھتی تھیں لیکن بھٹو آرائیں ہوں یا راجپوت یہ بات تو واضح ہے کہ یہ خاندان بھی سندھ کا پرانا رہائشی نہیں ہے۔ دوسری طرف نوابی چپقلش میں جب نواب آف جونا گڑھ پر حملہ ہوا تو اس سازش میں شامل ایک اہم شخصیت کو شاہنواز بھٹو کی مخبری پر گرفتار کر لیا گیا اور سازش ناکام بنا دی گئی۔ اس موقع پر نواب نے خوش ہو کر شاہنواز بھٹو کو محل کی کوتوالی کا انچارج لگا دیا اس طرح شاہنواز بھٹو کا محل میں آنا جانا آسان ہو گیا۔ ایک محفل میں بھٹو کو ہندو لکھی بائی پسند آ گئی جو بعد میں خورشید بھٹو بنی۔ چونکہ لکھی بائی کا خاندان امیر اور انگریزوں کے زیادہ قریب تھا اور بھٹو نے اس موقعہ کو ہاتھ سے نہ جانے دیا اور اس شادی کے نتیجہ میں شاہنواز بھٹو جونا گڑھ کے دیوان یعنی پرائم منسٹر کا عہدہ پا گیا۔
شاہنواز بھٹو عملی طور پر میدان میں ایک طرف جوناگڑھ اسٹیٹ کا وزیر اعظم جبکہ دوسری طرف انگریزوں کا پٹھو مکمل طور پر جاسوسی کر رہا تھا۔ جب تحریک آزادی پاکستان زوروں پر تھی اور جونا گڑھ کو 23 مارچ کی قرارداد مقاصد کے تحت پاکستان میں شامل ہونا تھا جس کی بھٹو نے سخت مخالفت کی اور ایک خط ہندو اسٹیبلشمنٹ کو لکھا۔ اس خط کے نتیجہ میں جونا گڑھ ریزیڈینسی کو پاکستان کے متوقع نقشہ سے الگ کر دیا گیا اور انڈیا میں شامل کر دیا گیا یہ دیکھ کر مسلمان بپھر گئے اور گورا پلٹن پر حملہ کر دیا اس طرح شاہنواز بھٹو کو جب موت نظر آئی تو وہ فوراً ممبئی لکھی بائی یعنی اپنے سسرال کے ہاں بھاگ گیا جہاں کچھ دن چھپے رہنے کے بعد پھر دوستوں کے مشورہ پر مسلم لیگ میں شامل ہو گیا۔ اس وقت تک یہ صورت حال قائد اعظم محمد علی جناح کے علم میں نہیں تھی۔ پھر جب بھٹو صاحب ممبئی سے کراچی آئے تو مسلم لیگ میں خوب چندہ دیا اور وہ زیوارات جو وہ جونا گڑھ سے لائے تھے بیچ بیچ کر خوب سیاست چمکائی۔ بعد میں کراچی میں کسی مسلم لیگی نے ایک مرتبہ انھیں پہچان لیا اور بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی تو یہ خبر قائد اعظم محمد علی تک بھی پہنچ گئی کہ وہ جونا گڑھ والے بھٹو یہی بھٹو ہیں مگر موقع کی نزاکت جان کر کچھ نا کہا البتہ نجی محفل میں سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
ایک موقع پر جب جناح صاحب سے سندھی میں بات کی تو انھوں نے جھڑک دیا کہ سب سندھی نہیں سمجھتے اس لیے اردو میں بات کریں۔ اس کے کچھ عرصہ بعد بھٹو صاحب واپس اپنی دھرتی پر لاڑکانہ پہنچ گئے اور یوں یہ خاندان گزشتہ 75 سالوں سے سندھ کی عوام کے ساتھ ساتھ پورے پاکستانیوں کا خون چوس رہا ہے
واپس کریں