
۔ 2017 میں نیشنل سکیورٹی کونسل کی میٹنگ میں جب سابق ڈائریکٹر آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر سولین قیادت کو بھاشن دے رہے تھے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عسکری قیادت کا ساتھ دیں تو اس وقت پنجاب کے وزیر اعلٰی شہباز شریف نے انہیں ٹوک کر کہا تھا کہ ہم جب بھی کسی دہشت گرد کو گرفتار کرتے ہیں تو خفیہ ادارے اس کو چھڑوانے پہنچ جاتے ہیں۔ یہ گفتگو مبینہ طور پر پرویز رشید نے ڈان کے صحافی سیرل المیڈا کو بتائی جنہوں نے ڈان میں یہ خبر چھاپ دی۔
لیکن اس کے بجائے کہ بحث اور تفتیش کا مرکز وہ کردار بنتے جو ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کررہے تھے جنہوں نے ہزاروں پاکستانی شہریوں کو ذبح کیا، اس خبر کو بنیاد بنا کر سولین حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ شروع ہوگیا۔ نواز شریف کو وزارت اعظمی سے نکالنے میں بھی اس واقعے کا اہم کردار تھا جبکہ سیرل امیڈا کو صرف اس خبر کو رپورٹ کرنے کے جرم میں کئی کیس بھگتنے پڑے۔
اب خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلٰی علی آمین گنڈا پور نے بھی اسی نوعیت کے الزامات اپنی پریس کانفرنس میں لگائے ہیں۔ یہ الزامات خطے کی دیگر پارٹیاں اور سماجی تحریکیں بھی لگا چکی ہیں۔ یاد رکھیں کہ عمران خان کے دور میں جنرل باجوہ اور جنرل فیض کی یہ پالیسی تھی کہ "گڈ طالبان" کو پاکستان کے اندر پناہ دی جائے۔ آج یہ الزامات اس وقت لگ رہے ہیں جب وزیر خارجہ کی واشنگٹن میں امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ مارکو روبیو سے ملاقات ہوئی ہے جس میں معدنیات کا ایک بار پھر ذکر ہوا ہے جن کی زیادہ تعداد خیبر پختون خواہ میں موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ طالبان کے حملے روز بروز بڑھ رہے ہیں جبکہ ایک بڑے پیمانے پر ملٹری آپریشن کرنے کی بحث بھی چھڑ گئی ہے۔
دنیا بھر میں دہشت گردی سے لڑنے کے لئے عسکری طاقت کا استعمال ایک اہم پہلو ہوتا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ اہم پہلو سیاسی افہام و تفہیم اور شفافیت ہوتے ہیں جن کے بعد کسی عسکری ایکشن کا سوچا جاسکتا ہے۔ یہاں حالات یہ ہیں کہ نہ صرف سماجی تحریکیں بلکہ وزرائے اعلی یہ الزام لگارہے ہیں کہ عسکری قیادت اور طالبان ایک پیج پر ہیں۔ دوسری جانب معدنیات کی ڈیل پر اے این پی نومبر میں آزادی دو تحریک کا اعلان کر چکی ہے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی مصلحتوں کا شکار ہونے کی وجہ سے ابھی خاموش ہیں ورنہ ڈان لیکس کے وقت یہی الزامات یہ دونوں پارٹیوں بھی اسٹیبلشمنٹ پر لگاتی تھیں۔ ایسے میں کسی آپریشن کی حمایت کا سوچنا بھی حماقت ہوگی کیونکہ اس سے تضادات کم ہونے کی بجائے پورے خطے میں ایک نہ ختم ہونے والی آگ لگ جائے گی جس سے کوئی بھی نہ بچ پائے گا۔
ان معاملات کا حل سکیورٹی پالیسی پر عسکری اداروں کی اجارہ داری کو ختم کئے بغیر ممکن نہیں ہے۔ عسکری ایکشن لڑائی کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ جنگ کیسے لڑنی ہے، یہ مجھ سے بہتر وہی بتا سکتے ہیں جو اس کام کے لئے ٹرین ہوئے ہیں۔ لیکن کشیدگی کے اسباب کیا ہیں، کن فریقین سے گفتگو ہوسکتی ہے، مقامی لوگوں کے تاثرات کیا ہیں، سیاسی نمائندے کیا سوچ رہے ہیں، ان پالیسیوں کے مقامی معیشت پر کیا اثرات ہوں گے، یہ سب ایسے سوال ہیں جو سکیورٹی پالیسی کا اہم ترین حصہ ہیں لیکن یہ سوال عسکری قیادت نہیں، پارلیمنٹ، سول سوسائیٹی، میڈیا، اور مقامی قیادت ہی اٹھا سکتی ہے۔ لیکن افسوس پارلیمنٹ ریموٹ کنٹرول سے چل رہا ہے، میڈیا سنسر شپ کا شکار ہے، سول سوسائٹی کو جنگ زدہ علاقوں میں داخل ہونے کی اجازت ہی نہیں جبکہ مولانا خانزیب جیسے مقامی لیڈران کو شہید کیا جارہا ہے۔ ایسے میں کسی قسم کا درمیانی راستہ نکالنا ناممکن ہوتا جارہا یے۔
لوگوں کی زندگی موت کے فیصلے اسلام آباد یا واشنگٹن کے بند کمروں میں نہیں ہو سکتے۔ فاٹا کو black zone مت بنائیں۔ لوگوں کی آواز کو سنیں اور ثابت کریں کہ گڈ طالبان والی پالیسی ختم ہوچکی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو جو ملک کے حالات ہیں، فوجی آپریشن یا کسی بھی قسم کی کاروائی کے لئے پنجاب سمیت ملک بھر میں کسی بھی صوبے سے حمایت حاصل کرنا ناممکن ہوجائے گا۔ اور اقتدار میں بیٹھی پارٹیاں بھی یاد رکھیں کہ عوام بیدار ہوچکی ہے۔ جب اس بار آپ کو ٹیشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینکا جائے گا تو آپ کے رونے دھونے کو کوئی سنجیدہ نہیں لے گا۔ جو ظلم پر پردہ ڈالے، تاریخ میں اس کا شمار بھی قاتلوں اور رہزنوں میں ہی ہوتا ہے
واپس کریں