ابھی پی ٹی آئی کے گزشتہ احتجاجوں کی بازگشت ختم نہیں ہوئی تھی کہ بانی پی ٹی آئی نے 24نومبر کو اسلام آباد کا گھیرائو کرنے کیلئےفائنل کال دے دی ہے ۔ اس فائنل کال کا مقصد عمران خان کو رہا کروانا ہے لیکن بشریٰ بی بی نے اس سیاسی احتجاج کو جس طرح مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی ہے وہ حیران کن ہے ۔ ویسے تو اپنے سیاسی احتجاج کو مذہبی ٹچ دینا پی ٹی آئی کا پرانا وطیرہ ہے لیکن بشریٰ بی بی کا عمران خان کی رہائی کو خدا کی خوشنودی کے ساتھ جوڑنا اپنے ذاتی دنیاوی مفادات کے حصول کیلئے مذہبی بلیک میلنگ ہی کہلائےگا۔ ویسے تو بشریٰ بی بی کی اپنی کرامات بھی ہمیشہ موضوعِ بحث رہتی ہیں جسکی مثالیں بھی تاریخ میں کم ہی ملتی ہیں۔ لیکن اپنے پیروکاروں کو شخصیت پرستی کے پنجرے میں قید رکھنے کی ان کوششوںکے پیچھے صرف ایک وجہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنے دورِ حکومت کی ایک بھی اچھی کارکردگی یا کارنامہ بیان نہیں کرسکتی ۔ جسکی وجہ سے اسےعملیات اور مذہبی بلیک میلنگ کا سہارا لینا پڑتاہے۔پاکستان تحریکِ انصاف جب سے قومی سیاست میں منظرِ عام پر آئی ہے یعنی 2011ءکے بعد سے پاکستان مسلسل سیاسی عدم استحکام ، دھرنوں اور جلسے جلوسوں کا شکار ہے ۔ وہ 126دن کا ڈی چوک میں دھرنا ہو یا پارلیمنٹ ہائوس اور پی ٹی وی کی عمارتوں پر حملہ ، وہ سوشل میڈیا پر غیر اخلاقی اور مخالفین کی کردار کشی پر مبنی مواد ہو یا قومی سلامتی کے اداروں پر 9مئی کےحملے میں توڑ پھوڑ ، پی ٹی آئی نے ایسا کوئی کام نہیں چھوڑا جسکی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کوئی نظیر ملتی ہو۔ پاکستان کی سیاست میں پہلے ہی خاصی غیر سنجیدگی پائی جاتی تھی۔ لیکن عمران خان نے پاکستان کی نئی نسل کو جس سیاسی دشمنی، تشدّد ، بد اخلاقی اور بد لحاظی میں مبتلا کر دیا ہے وہ پاکستان میں آنے والے خوفناک منظر نامے کا پیش خیمہ ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اپنے پونے چار سالہ دورِ اقتدار میں خان صاحب نے پاکستان کی معیشت کوبُری طرح تباہ کر دیا۔ لیکن وہ مخالفین سے سیاسی انتقام لینے میں مصروف رہے اس دور میں میڈیا کو مکمل طور پر پابند سلاسل کر دیا گیا۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں کرپشن 24درجے بڑھ گئی ۔ اس پورے دور میں ایک بھی ایسا پراجیکٹ شروع نہ کیا جا سکا جسے پی ٹی آئی اپنی گڈ گورننس کے ثبوت کے طور پر پیش کر سکے۔ حالانکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں پہلے تین سال میں جو گرانقدر کارنامے سرانجام دیے گئے وہ پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ قابلِ فخر رہیں گے۔ پاکستان جو سرزمین بے آئین کہلاتا تھا اسے ایک نہیں دو آئین دیے گئے ایک عبوری آئین اور دوسرا آئین1973ءکا متفقہ مستقل آئین ۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی بنیاد رکھی گئی پانچ ہزار میل علاقہ اور 90ہزار جنگی قیدی بھارت کی قید سے رہا کرائے گئے۔ 74میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے ذریعے پاکستان کو مسلم دنیا کا مسلّمہ لیڈر بنایا گیا۔ خلیجی ممالک میں پاکستانیوں کیلئے ملازمت کے مواقع پیدا کیے گئے اور طالب علموں اور محنت کشوں کی فلاح و بہبودکیلئے قانون سازی کی گئی۔ اسی طرح مسلم لیگ نون کے پاس بھی موٹر وے اور ایٹمی دھماکے کرنے کا کریڈٹ ہے ۔پی ٹی آئی نے پونے چار سال سیاست دانوں اور ریاستی اداروں کے ساتھ شدید محاذ آرائی کے علاوہ کیا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے دورِ اقتدار میں اسٹیبلشمنٹ کی بھر پور مدد کے باوجود پاکستان کی معیشت زمین بوس ہو گئی۔ اور تاریخ میں پہلی مرتبہ ہماری جی ڈی پی منفی درجوں میں چلی گئی۔ جس وجہ سے عمران خان کی حکومت اپنے دور میں ہونیوالے 13ضمنی انتخابات میں سے 12انتخاب ہار گئی یہاں تک کہ کے پی میں بھی جو اس کا گڑھ سمجھا جاتا ہے بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی جے یو آئی کے ہاتھوں مار کھا گئی ۔ اس دور میں اگر عام انتخابات منعقد ہو جاتے تو آج شائد پی ٹی آئی اپنا وجود کھو چکی ہوتی۔ پی ٹی آئی کی تمام تر مقبولیت عمران خان کی سیاسی بصیرت یا اسکے دورِ حکومت کی کارکردگی سے قطعاََ تعلق نہیں رکھتی ۔ وہ محض مظلومیت کارڈ کی بدولت ہے جو دیر پا نہیں تمام بالغ نظر سیاسی دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ عمران خان کے مزاج ، عمومی تربیت اور فطری صلاحیت میں گڈ گورننس کا کوئی امکان نہیں۔ اسکی وجہ سے ملک کسی خوفناک خانہ جنگی کا شکار تو ہو سکتا ہے لیکن وہ سیاست کے سب سے بڑے اصول مصالحت اور مصلحت سے کوسوں دور ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نہ صرف اپوزیشن بلکہ حکومت میں رہ کر بھی اپوزیشن سے ہاتھ ملانا پسند نہیں کرتاتھا۔ وہ شاید دنیا کا پہلا سیاستدان ہے جو مکمل طور پر غیر سیاسی روّیوں کا حامل ہے۔ ابھی سوال کسی پارٹی کی حکومت کا نہیں اس خوفناک سیاسی اور معاشی بحران سے باہر نکلنے کا ہے۔ جس کا باعث عمران خان کی دھینگا مشتی، نفرت اور تقسیم کی سیاست ہے۔ پی ٹی آئی نے اپنی پوری کوشش کی کہ پاکستان آئی ایم ایف اور اپنے دوستوں کی مدد سے اس سنگین بحران سے نہ نکل پائے ۔ مگر بہتر ہوتی ہوئی معیشت ، افراطِ زر اور مہنگائی میں کمی اور اسٹاک ایکسچینج میں تیزی جیسے مثبت اشاریوں پر مثبت ردِ عمل ظاہر کرنے کی بجائے اس مرحلے پر ایک نئی ہنگامہ آرائی نے ایک مرتبہ پھر پی ٹی آئی کی سوچ کو بے نقاب کر دیا ہے۔
واپس کریں