اظہر سید
حافظ صاحب ڈنڈے سے ڈالر کی قیمت میں مصنوعی اضافہ روک لیں گے لیکن ادائیگیوں کے توازن کی مسلسل لٹکتی تلوار سے ڈالر کی قیمت میں اصل اضافہ کبھی نہیں روک پائیں گے ۔پاکستان نادہندہ ہو چکا ہے ۔ آئی ایم ایف پیکیج عارضی صحتیابی کا سرٹیفکیٹ ہے لیکن معاشی بیماری سے صحتیابی کیلئے پورا نظام تبدیل کرنا پڑے گا ۔مالکوں کے عدلیہ اور میڈیا میں "حرام دے"انڈے بچے تلف کرنا پڑیں گے ۔ طاقتور سیاسی حکومت کے فیصلوں کو تسلیم کرنا پڑے گا تب بچ نکلنے کے امکانات ہو سکتے ہیں ۔
مالکوں میں ستتر سال کی ریاستی ملکیت کے مائنڈ سیٹ سے چھٹکارا بظاہر کار دشوار لگتا ہے لیکن چھٹکارے کے بغیر معاشی بحالی ممکن نہیں ۔جو کچھ کھایا پیا اور کیا اس کے نتایج بھگتنا ہی پڑیں گے ۔
حافظ صاحب اور اسلم بیگ دو چیف ایسے ہیں جو پینٹا گون کے حلیف نہیں ۔ اسلم بیگ کو ضیا الحق کے طیارہ تباہی اور حافظ صاحب کو سی پیک حامی سیاسی جماعتوں کی مہارت کی وجہ سے چیف بننے کا موقع ملا ۔
حافظ صاحب کی چیف شپ بہت زیادہ پیچیدگیوں کا شکار ہے . مالکوں نے 2018 میں دشمن قوتوں کو ووٹ کی طاقت سے شکست دے کر جو تحفہ مسلط کیا تھا اس نے کسی کے پلے کچھ نہیں چھوڑا ۔ تبدیلی کی باقیات مالکوں کے پاور انفراسٹرکچر اور عدلیہ میں موجود ہیں ۔یہ باقیات سی پیک روک کر معیشت نادہندہ کروا کر ایٹمی اثاثوں کو خطرہ میں ڈال چکی ہیں ۔ باقیات اب بھی اپنی جگہوں پر موجود مزاحمت کر رہی ہیں اور یہ وہ مزاحمت ہے جو حافظ صاحب کو ڈنڈے کے زور پر معیشت کے عارضی علاج پر مجبور کر رہی ہے ۔
معیشت کا اصل علاج عدلیہ ،میڈیا اور فوج کا مہذب جمہوری ریاستوں کی طرف اپنے اپنے دائرہ کار میں رہنا ہے اور یہی وہ کام ہے جس نے ریاست پر بے یقینی کی فضا قائم کر رکھی ہے۔ ملکی سلامتی کو سوالیہ نشان بنا رکھا ہے ۔
مالکوں کے پاور انفراسٹرکچر میں قائم مخصوص مائنڈ سیٹ چوہدری شجاعت کی ماضی پر "مٹی پاؤ" پالیسی تو قبول کر لے گا لیکن جنرل باجوہ ،فیض حمید ،ثاقب ناسور ،کھوسہ،گلزاری لال اور بنڈیال کے خلاف کاروائی کی اجازت نہیں دے گا ۔مائند سیٹ ریاست کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کی ملکیت بھی نہیں چھوڑے گا کہ مالکوں کے مائنڈ سیٹ کا یہ سوچ کر ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔
حافظ صاحب نے پاکستان بچانے کیلئے اگر ان معاملات میں یعنی خارجہ اور داخلہ پالیسوں کی ملکیت چھوڑنے کی طرف پیش قدمی کی تو انہیں موقع یا اجازت ملے گا یا نہیں یہ ایک الگ سے ملین ڈالر سوال ہے ۔
سوویت یونین بہت بڑی جنگی مشین تھا لیکن معیشت کے ہاتھوں تحلیل ہو گیا۔گورباچوف کو جو مرضی کہیں لیکن اس نے سوویت یونین کی تحلیل کی طرف قدم بڑھا کر وسط ایشیا میں بہت بڑی خانہ جنگی روک لی تھی اور مستقبل کس نے دیکھا ہے سنٹرل ایشیائی ریاستیں دوبارہ سے کسی وفاقی نظام کے تحت آ سکتی ہیں ۔
پاکستان ایک کلاسیکل مثال ہے ۔ بیرونی ادائیگیوں کا بوجھ برآمدات ،ترسیلات کی آمدن سے بڑھ چکا ہے جبکہ اندرونی ادائیگیوں کا بوجھ حاصل کردہ محصولات سے تجاوز کر گیا ہے ۔"ننگی نہائے کیا نچوڑے کیا"
ڈنڈے سے ممکن ہے ڈالر اپنی اصل قیمت 230 سے 250 تک آ جائے ،لیکن یہ جو اندرونی اور بیرونی ادائیگیوں کا بوجھ مسلسل بڑھے گا وہ جلد ہی ڈالر کی اصل قیمت پہلے تین سو پھر ساڑھے تین سو پھر چار سو تک لے جائے گا ۔ یہ کینسر ہے اس کا علاج صرف اور صرف تمام اداروں کے اپنے اپنے دائرہ کار میں جانے سے نکلے گا ۔ ڈنڈوں سے معیشت درست ہو سکتی تو سوویت یونین تحلیل نہ ہوتا۔
معاشی بحالی کی مثالیں موجود ہیں ۔ترکی اور بھارت دونوں ریاستیں نادہندگی چھو کر واپس آئی ہیں ۔قرضے نقصان نہیں پہنچاتے لیکن ادائیگیوں کی سکت کھو دینا جان لیوا ہوتا ہے ۔
جو حالات ہیں مالکان الیکشن سے پہلے بلی تلاش کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ گھنٹی اس کے گلے میں باندھ دی جائے ۔ہمیں نہیں لگتا اب کوئی بلی گھنٹی گلے میں بندھوانے کیلئے تیار ہو گی ۔
شہباز شریف لندن جا کر بیمار ہو گئے ہیں ۔پیپلز پارٹی والوں نے نواز شریف اور شہباز شریف کی طرح گڈ کاپ بیڈ کاپ کھیلنا شروع کر دیا ہے ۔مولانا فضل الرحمٰن نوسر باز کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو غلطی بتانے لگے ہیں ۔
مالکان کیا کریں گے ؟ حافظ صاحب کو ریاست کی ملکیت چھوڑنے کی اجازت دیں گے یا پھر ڈنڈے کے زور پر معاشی بحالی کے میڈیائی دعووں سے "وقت ٹپاؤ" پالیسی پر عمل کریں گے ."لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے"
واپس کریں